”پھر تمہارا خط آیا“
شام ، حسرتوں کی شام
رات تھی جدائی کی
صبح صبح ھرکارہ
ڈاک سے ھوائی کی
نامۂ وفا لایا
پھر تمہارا خط آیا
پھر کبھی نہ آؤنگی
موجۂ صبا ھو تم
سب کو بھول جاؤنگی
سخت بے وفا ھو تم
دشمنوں نے فرمایا
دوستوں نے سمجھایا
پھر تمہارا خط آیا
ھم تو جان بیٹھے تھے
ھم تو مان بیٹھے تھے
تیری طلعتِ زیبا
تیرا دید کا وعدہ
تیری زلف کی خوشبو
دشتِ دور کے آھُو
سب فریب ، سب مایا
پھر تمہارا خط آیا
ساتویں سمندر کے
ساحلوں سے کیوں تم نے
پھر مجھے صدا دی ھے
دعوت وفا دی ھے
تیرے عشق میں جانی
اور ھم نے کیا پایا۔
درد کی دوا پائی
دردِ لادوا پایا
کیوں تمہارا خط آیا
”انشا جی“