شام سے آنکھ میں نمی سی ہے
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے
آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
_گلزار
آج پھر آپ کی کمی سی ہے
دفن کردو ہمیں کہ سانس ملے
نبض کچھ دیر سے تھمی سی ہے
کون پتھرا گیا ہے آنکھوں میں
برف پلکوں پہ کیوں جمی سی ہے
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے
کوئی رشتہ نہیں رہا پھر بھی
ایک تسلیم لازمی سی ہے
آئیے راستے الگ کر لیں
یہ ضرورت بھی باہمی سی ہے
_گلزار