کہو، کیا جل رہا ہے پھر جہاں میں آشیاں اس کا ؟
نہیں ، جب دل سلگتا ہے تو اٹھتا ہے دھواں اس کا
بھلا کیوں پھول کی پہچان بنتی ہے مہک اسکی ؟
سنو ، سورج کی کرنوں سے ہی ملتا ہے نشاں اس کا
کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟
سنو ، دل کی زمیں اس کی نظر کا آسماں اس کا
بھلا کب دنی پڑتی ہے وضاحت سامنے سب کے ؟
پتہ جب پوچھتی ہیں آ کے ہم سے دوریاں اس کا
خطا دونوں کی تھی لیکن سزا کیوں ایک نے پائی؟
سنو تنہا تھا دل اپنا مگر سارا جہاں اس کا
سنو ، اس بےوفا کی یاد تو آتی نہیں ہو گی ؟
سنو ، دل رک سا جاتا ہے جو آتا ہے دھیاں اس کا
سنو، وہ ہر جگہ جا کر تمہیں بدنام کرتا ہے !
کہا، یہ جاں سلامت ہے ، رہے جاری بیاں اس کا
بچھڑ کر کیا کبھی سوچا اسے ملنے کے بارے میں ؟
سنو، دھرتی کے ہم باسی ، فلک پر ہے مکاں اس کا