یاد کرنے کا ارادہ بھی نہیں
بھُول جاؤں تُجھے ایسا بھی نہیں
شہر کا شہر چلا آیا ھے کیوں
یہ مرا دل ھے تماشا بھی نہیں
یہ بھی سچ ھے کہ بتایا نہ گیا
حال اُس نے مرا پوچھا بھی نہیں
ھر کوئی زات میں گُم اپنی جگہ
دیکھنے میں کوئی تنہا بھی نہیں
حالِ دل سارا بیاں کر تو دیا
اُس نےخط کھول کے دیکھا بھی نہیں
ترے ہاتھوں کے نشاں اُس پہ ملے
تُو نے جس ہاتھ کو تھاما بھی نہیں
یہ بھی سچ ھے کوئی مجھ سا بھی کہاں
اور جہاں میں کوئی تجھ سا بھی نہیں
خود بخود کھنچتا تری اور ھے کیوں؟
دل پہ میرے ترا قبضہ بھی نہیں
اب نہ اظہار، نہ تکرار، نہ دل
کیا محبٌت ھے تقاضا بھی نہیں
آئینہ دیکھ کے حیرت سی ھے کیوں
سامنے تو مرا چہرہ بھی نہیں
آج ھم ٹُوٹ کے ملتے ھیں بتول !
زندگی کا تو بھروسہ بھی نہیں
(فاخرہ بتول)