حسابِ عُمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خساراہے
کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تُم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے
وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گواراہے
ہر اک صدا ج ہمیں باز گشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے
وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حسن کسی حُسن کا اشارہ ہے
عجب اصول ہیں اِس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اتارا ہے
کہیں پہ ہے کوئی خوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالم ِموجود استعارہ ہے
ناجانے کب تھا !کہاں تھا !مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گزارا ہے
یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارہ ہے