مان لے
کِسی ہاتھہ پر کِسی لوح پر
جو لِکھا نہیں
وہی ایک حرف گماں ہیں ہم
خطِ گمشدہ میں لکھی گئی
کوئی اجنبی سی زباں ہیں ہم
کسی اور خطہء درد پر
جو گزر گیا سو گزر گیا
کوئی بے نشاں سا نشاں ہیں ہم
کبھی اپنے ہونے کے واہمے سے نکل کے دنیا کو دیکھئے
تو نہ کُھل سکے کہ کہاں ہیں ہم ؟
میری جاں ہماری یہ داستاں
اِسی آسماں کی چھت تلے
اِنہی کہکشاؤں کے درمیاں
کئی لاکھہ بار کہی گئی
کئی لاکھہ بار سنی گئی
یہ حدیثِ نغمہ بے صدا
کبھی سُرخ پھولوں کی تیز خُوشبو میں رُک گئی
کہیں آنسووں میں رواں ہوئی
یہ وہ شمع شام وصال ہے
جو تمام رات جلی کبھی
کبھی ایک پل میں دھواں ہوئی
کبھی روشنی کا یقیں بنی
کبھی تیرگی کا گمان ہوئی
" تو جو ہوگیا اُسے مان لے "
Comment