Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ہے پسِ بامِ شب نہ سحر کو&

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ہے پسِ بامِ شب نہ سحر کو&

    سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ہے پسِ بامِ شب نہ سحر کوئی
    عجب ایک عرصۂ درد ہے، نہ گمان ہے نہ خبر کوئی

    نہیں اب تو کوئی ملال بھی کسی واپسی کا خیال بھی
    غمِ بے کسی نے مِٹادیا مرے دل میں تھا بھی اگر کوئی

    تجھے کیا خبر ہے کہ رات بھر تجھے دیکھ پانے کو اِک نظر
    رہا ساتھ چاند کے منتظر تری کھِڑکیوں سے اُدھر کوئی

    سرِ شاخِ جاں ترے نام کا عجب ایک تازہ گلاب تھا
    جسے آندھیوں سے خطر نہ تھا جسے تھا خزاں کا نہ ڈر کوئی

    تری بے رُخی کے دِیار میں، گھنی تِیرگی کے حِصار میں
    جلے کس طرح سے چراغِ جاں، کرے کس طرف کو سفر کوئی

    کٹے وقت چاہے عذاب میں کِسی خواب میں یا سَراب میں
    جو نظر سے دُور نکل گیا اُسے یاد کرتا ہے ہر کوئی

    سرِ بزم جتنے چراغ تھے وہ تمام رمز شناس تھے
    تری چشمِ خوش کے لِحاظ سے نہیں بولتا تھا مگر کوئی
    Last edited by *Rida*; 13 May 2012, 15:29.
    For New Designers
    وَ بَارِکْ لِيْ فِيْمَا أَعْطَيْتَ
Working...
X