خواب ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی ہاتھ جھوٹ جاتے ہیں
دوست دار لہجوں میں سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سی
شک کی زرد ٹہنی پر پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں' غیر بن کے ملتے ہیں
عمر بھر کی چاہت کو آسرا نہیں ملتا
دشتِ بے یقینی میں راستہ نہیں ملتا
خاموشی کے کے وقفوں میں
بات ٹوٹ جاتی ہےاور سرا نہیں ملتا
معذرت کے لفظوں کو روشنی نہیں ملتی
لذتِ پزیرائی' پھر کبھی نہیں ملتی
پھول رنگ وعدوں کی منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بےرخی کے گارے سے،بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے اینٹ جڑنے لگتی ہے
خاک اڑنے لگتی ہے
خوب ٹوٹ جاتے ہیں
واہموں کے سائے سے'عمر بھر کی محنت کو
پل میں لُوٹ جاتے ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ ٹوٹ جاتے ہیں
بھیڑ میں زمانے کی
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
امجد اسلام امجد