یہ کون آج مِری آنکھ کے حصار میں ہے
مجھے لگا کہ زمیں میرے اختیار میں ہے
چراغِ رنگِ نوا، اب کہیں سے روشن ہو
سکوتِ شامِ سفر، کب سے انتظار میں ہے
کچھ اِس طرح ہے تری بزم میں یہ دل، جیسے
چراغِ شامِ خزاں، جشنِ نو بہار میں ہے
مِری حیات کے سارے سفر پہ بھاری ہے
وہ ایک پل جو تری چشمِ اعتبار میں ہے
جو اُٹھ رہا ہے کسی بے نشان صحرا میں
نشانِ منزلِ ہستی اُسی غبار میں ہے
ہماری کشتیٔ دل میں بھی اب نہیں وہ زور
تمہارے حسن کا دریا بھی اب اُتار میں ہے
کبھی ہے دُھوپ کبھی ابرِ خوش نما امجدؔ
عجب طرح کا تلون مزاجِ یار میں ہے
Amjad islam Amjad