اِک سرابِ سیمیا میں رہ گئے
لوگ جو بِیم و رجا میں رہ گئے
کِس شبِ نغمہ کی ہیں یہ یادگار!
چند نوحے جو ہَوا میں رہ گئے
پی لئے کچھ اشک پاسِ عشق نے
کچھ فشارِ التجا میں رہ گئے
کھو گئے کچھ حرف دشتِ ضبط میں
کچھ غبارِ مدعا میں رہ گئے
چند جستوں کا یہ سارا کھیل ہے
رہ گئے، جو ابتدا میں، رہ گئے
سبز سایہ دار پیڑوں کی طرح
رفتگاں، دشتِ وفا میں رہ گئے
حاصلِ عمرِ رواں، وہ وقت، جو
ہم تری آب و ہَوا میں رہ گئے
ہے لہو کا قافلہ اَب تک رواں
اور قاتل، کربلا میں رہ گئے
ہم ہیں امجدؔ اُن حقائق کی طرح
جو بیانِ واقعہ میں رہ گئے
Amjad islam Amjad