اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے
زور سب اس کا فقط اپنے مفادات پہ ہے
اپنے آئندہ تعلق کا تو اب دارومدار
تیری اور میری ہم آہنگی جذبات پہ ہے
دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے
پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے
اس کا کہنا ہے مجھے بھی کبھی دیکھو مڑ کر
کیا کروں میری نظر صورت حالات پہ ہے
بے حسی کے مجھے الزام عطا اس نے کئے
جس کے احساس کا سایہ مرے دن رات پہ ہے
چارہ گر اس کے سوا کون ہے ساجد میرا
قبضہ جس کا مری تنہائی کے لمحات پہ ہے
٭٭٭