ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں
سو کہاں کا ہوں میں غزل سرا مرے خال و خد بھی بنے نہیں
ابھی سینہ زور نہیں ہوا، مرے دل کے غم کا معاملہ
کوئی گہرا درد نہیں ملا ابھی ایسے چرکے لگے نہیں
اس سیل نور کی نسبتوں سے مرے دریچہ دل میں آ
مرے طاق چو ں میں ہے درشنی ابھی یہ چراغ بجھے نہیں
نہ مرے خیال کی انجمن نہ مرے مزاج کی شاعری
سو قیام کرتا میں کس جگہ مرے لوگ مجھ کو ملے نہیں
مری شہرتوں کے جو داغ ہیں مری محنتوں کے یہ باغ ہیں
یہ متاع و مال شک تگا ں ہیں، زکوٰۃ میں تو ملے نہیں
ابھی بیچ میں ہے یہ ماجرا سو رہے گا جاری یہ سلسلہ
کہ بساط حرف و خیال پر ابھی پورے مہرے سجے نہیں
٭٭٭