ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر
چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر
جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں
قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر
یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں
میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر
ہوش و خرد ایسے کھوتے ہیں، باپ بھلا ایسے ہوتے ہیں
بچہ بن کر چیخ رہے ہو بچوں کی نادانی پر
اے اس عہد کے بوڑھے بچو!آؤ ہمارے ساتھ چلو
لال گلابی ناؤ چلائیں ہرے سنہرے پانی پر
شام کے بعد ہی کھلتا ہے ہر بھید نشیلی خوشبو کا
دن کو توجہ کب دیتا ہے کوئی رات کی رانی پر
٭٭٭