جو خیال تھے نہ قیاس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے، وہی لوگ مجھ س بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جو راس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
یہ خیال سارے عارضی، یہ گلاب سارے عارضی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں کر سکا نہ قبول میں، وہ شریکِ راہ سفر ہوئے
جو میری طلب میری آس تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مری دھڑکنوں کے قریب تھے، مری چاہ میرا خواب تھے
وہ جو روزو شب میرے ساتھ تھے، وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
احمد فراز