وہی عشق جو تھا کبھی جنُوں اسے روزگار بنا دیا
کہیں زخم بیچ کے آ گئے کہیں شعر کوئی سُنا دیا
.
وہی ہم کہ جن کو عزیز تھی دُرِ آبرو کی چمک دمک
یہی ہم کہ روزِ سیاہ میں زرِ داغِ دل بھی لُٹا دیا
.
کبھی یوں بھی تھا کہ ہزار تیر جگر میں تھے تو دُکھی نہ تھے
مگر اب یہ ہے کسی مہرباں کے تپاک نے بھی رُلا دیا
.
کبھی خود کو ٹوٹتے پھوٹتے بھی جو دیکھتے تو حزیں نہ تھے
مگر آج خود پہ نظر پڑی تو شکستِ جاں نے ہلا دیا
.
کوئی نامہ دلبرِ شہر کا کہ غزل گری کا بہانہ ہو
وہی حرفِ دل جسے مدتوں سے ہم اہلِ دل نے بھلا د.یا
احمد فراز