Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

چراغِ مردہ کو اک بار اور اکساؤں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • چراغِ مردہ کو اک بار اور اکساؤں

    غزل

    چراغِ مردہ کو اک بار اور اکساؤں
    دیا بجھا تو سحر کا فریب کیوں کھاؤں

    خدا کے کام جو آئے، خدا بنائے گئے
    مَیں سوچتا ہوں کہ انسان ہی کے کام آؤں

    مَیں رنگ و نغمہ و رقصِ حیات ہوں یعنی
    ضمیرِ دہر ہوں، شاہوں کے ہاتھ کیا آؤں

    رچی ہوئی ہے رفاقت میرے رگ و پے میں
    کچھ اس طرح کہ اکیلا چلوں تو گھبراؤں

    ستارے ٹوٹ کے کلیوں کے روپ میں چٹکیں
    ذرا زمیں کے پندار کو جو اکساؤں

    کِسی کی زلف بھی منّت پذیرِ شانہ سہی
    مگر مَیں گیسوئے گیتی تو پہلے سلجھاؤں

    کئی برس سے مجھے مل رہا ہے درسِ خودی
    یہی کہ تیرگیوں میں ہوَا سے ٹکراؤں

    مَیں اب سے دُور فرشتوں کے گیت لکھتا رہا
    یہ آرزو ہے کہ اب آدمی کو اپناؤں
    (احمد ندیم قاسمی)
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

Working...
X