قطرہ مانگے جو کوئی تو اُسے دریا دے دے
مجھ کو کچھ اور نہ دے، اپنی تمنا دے دے
وہ جو آسوُدگی چاھیں انہیں آسوُدہ کر
بے قراری کی لطافت مجھے تنہا دے دے
میں اس اعزاز کے لائق تو نہیں ھوں لیکن
مجھ کو ھمسائیگیء گنبد خضراء دے دے
غم تو اِس دور کی تقدیر میں لکھے ھیں مگر
مُجھ کو ھر غم سے نمٹ لینے کا یارا دے دے
تب سمیٹوں میں ترے ابرِ کرم کے موتی
میرے دامن کو جو تو وسعتِ صحرا دے دے
تیری رحمت کا یہ اعجاز نہیں تو کیا ھے
قدم اُٹھیں تو زمانہ مجھے رَستہ دے دے
جب بھی تھک جائے محبّت کی مسافت میں ندیم
تب تِرا حُسن بڑھے اور سنبھالا دے دے
احمد ندیم قاسمی