پھر بیٹھی ہے خزاں باغ کی دیوار کے ساتھ
جبکہ پتا بھی نہیں ہے کوئی اشجار کے ساتھ
کچھ تعلق تو نہیں تھا مرا بیمار کے ساتھ
پھر بھی دل ڈوب گا شام کے آثار کے ساتھ
ایک ہے میری انا، ایک انا کس کی ہے
کس نے دیوار بنا دی میرے دیوار کے ساتھ
تم بڑے لوگ ہو سیدھے ہی گزر جاتے ہو
ورنہ کچھ تنگ سی گلیاں بھی ہیں بازار کے ساتھ
مستقل درر کا سودا ہے، ذرا نرمی سے
کچھ رعایت بھی تو کرتے ہیں خریدار کے ساتھ
اب تو میں صرف تعلق کے عوض بیٹھا ہوں
اب تو سایہ بھی نہیں ہے تری دیوار کے ساتھ
کوئی فنکار کی تنہائی کی جانب نہ گیا
لوگ جا جا کے لپپٹے رہے شاہکار کے ساتھ
عدیم ہاشمی
Comment