یہی نہیں کہ زخم ِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں
یہ حال تھا کہ دل کو اسمِ آرزو ملا نہیں
ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے
وہ رہگزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں
تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا
کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں
وہ جیسے ایک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا
رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں
تمام آئینوں میں عکس تھے مری نگاہ کے
بھری نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں
وارثوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی
کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خُو ملا نہیں
وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بکو لیے پھری
وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں
٭٭٭