گستاخ بہت شمع سے پروانہ ہوا ہے
موت آئی ہے، سر چڑھتا ہے، دیوانہ ہوا ہے
آسیب پری جلوۂ جانانہ ہوا ہے
جس کو نظر آیا ہے وہ دیوانہ ہوا ہے
اس عالمِ ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا ہے، کیا کیا نہ ہوا ہے
ساقی نے چھکایا ہے پلا کر جو پیالہ
جمشید گداے درِ مے خانہ ہوا ہے
خالِ رخِ روشن سے یہ روشن ہے الٰہی
قدرت سے تری آگ میں یہ دانہ ہوا ہے
تا صبح شبِ ہجر میں جھپکی نہیں آنکھیں
نیند اڑ گئی ہے دردِ سر افسانہ ہوا ہے
حیرت ہے رخِ روشنِ محبوب کا افشاں
کیا ذرّہ و خورشید میں یارانہ ہوا ہے
خوش رکھتا ہے زنداں میں بھی مجنوں کو تصوّر
لیلیٰ کا سیہ خیمہ، سیہ خانہ ہوا ہے
بلبل نے لحد پر ہیں مری پھول چڑھائے
موجودہ لیے شمع کو پروانہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون نہ تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تنِ بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
مطلب کی کہی ہے جو کبھی یار سے ہم نے
نامحرم و ناواقف و بیگانہ ہوا ہے
زنجیر کا خواہاں نہ ہو سرکار جنوں سے
بے قید ہوا ہے وہ جو دیوانہ ہوا ہے
اللہ رے مرے عہد میں یوسف کی گرانی
قیمت نہ ہوئی تھی سو وہ بیعانہ ہوا ہے
ہندو و مسلماں ہیں ترے سجدے کو آئے
مسدود درِ کعبہ و بُت خانہ ہوا ہے
منہ دھو کے وہ زلفوں کو بنا کر ہیں نکلتے
آئینے کو دیکھا ہے طلب شانہ ہوا ہے
اک طفل کو دکھلا کے کیا کشتہ فلک نے
کس پیر سے کیا کارِ جوانانہ ہوا ہے
سچ یہ ہے کہ آتش نہیں تجھ سا کوئی شاعر
شہروں میں ترے جھوٹ کا افسانہ ہوا ہے
(آتش)
موت آئی ہے، سر چڑھتا ہے، دیوانہ ہوا ہے
آسیب پری جلوۂ جانانہ ہوا ہے
جس کو نظر آیا ہے وہ دیوانہ ہوا ہے
اس عالمِ ایجاد میں گردش سے فلک کے
کیا کیا نہیں ہونے کا ہے، کیا کیا نہ ہوا ہے
ساقی نے چھکایا ہے پلا کر جو پیالہ
جمشید گداے درِ مے خانہ ہوا ہے
خالِ رخِ روشن سے یہ روشن ہے الٰہی
قدرت سے تری آگ میں یہ دانہ ہوا ہے
تا صبح شبِ ہجر میں جھپکی نہیں آنکھیں
نیند اڑ گئی ہے دردِ سر افسانہ ہوا ہے
حیرت ہے رخِ روشنِ محبوب کا افشاں
کیا ذرّہ و خورشید میں یارانہ ہوا ہے
خوش رکھتا ہے زنداں میں بھی مجنوں کو تصوّر
لیلیٰ کا سیہ خیمہ، سیہ خانہ ہوا ہے
بلبل نے لحد پر ہیں مری پھول چڑھائے
موجودہ لیے شمع کو پروانہ ہوا ہے
نالوں سے مرے کون نہ تھا تنگ مرے بعد
کس گھر میں نہیں سجدۂ شکرانہ ہوا ہے
یاد آتی ہے مجھ کو تنِ بے جاں کی خرابی
آباد مکاں کوئی جو ویرانہ ہوا ہے
مطلب کی کہی ہے جو کبھی یار سے ہم نے
نامحرم و ناواقف و بیگانہ ہوا ہے
زنجیر کا خواہاں نہ ہو سرکار جنوں سے
بے قید ہوا ہے وہ جو دیوانہ ہوا ہے
اللہ رے مرے عہد میں یوسف کی گرانی
قیمت نہ ہوئی تھی سو وہ بیعانہ ہوا ہے
ہندو و مسلماں ہیں ترے سجدے کو آئے
مسدود درِ کعبہ و بُت خانہ ہوا ہے
منہ دھو کے وہ زلفوں کو بنا کر ہیں نکلتے
آئینے کو دیکھا ہے طلب شانہ ہوا ہے
اک طفل کو دکھلا کے کیا کشتہ فلک نے
کس پیر سے کیا کارِ جوانانہ ہوا ہے
سچ یہ ہے کہ آتش نہیں تجھ سا کوئی شاعر
شہروں میں ترے جھوٹ کا افسانہ ہوا ہے
(آتش)