گفتار میں وہ اپنی بے باک ہو گیا ہے
جیسے کہ ہر کمی سے وہ پاک ہو گیا ہے
آنکھوں کی پتلیوں میں ٹھہرا وہی ہے منظر
جس کے دل ہمارا صد چاک ہو گیا ہے
رکھنا پڑے گا پھر بھی ہم کو بھرم وفا کا
مانا کہ جلتے جلتے دل خاک ہو گیا ہے
رکھوں میں کیسے آخر زخموں پہ اپنے مرہم
ہر غم میرے بدن کی پوشاک ہوگیا ہے
کہنے کو ہم سے بچھڑا اک شخص فوزیہ،پر
ماحول کیوں یہ سارا نمناک ہو گیا ہے
فوزیہ مغل
Comment