سفر میں گزری ہے عمر اپنی ، اب اک ٹھکانہ چاہیے
کہ زندہ رہنے کو کوئی تو بہانہ چاہیے
کوئی تو ہو جو ان رسموں سے اعلان بغاوت کرے
کہیں تو اندھیرے میں کوئی چراغ جلانا چاہیے
کب سے ویران پڑا ہے یہ آئینہ دل
سوچتا ہوں اب کوئی نیا چہرا سجانا چاہیے
بہت مدت سے ہے منتظر میرے دیس کی مٹی
چاید کہ اب مجھے لوٹ کے گھر جانا چاہئے
مجھے فقط اسی کے ساتھ کی تمنا تھی وقاص
مگر اسے میرے ساتھ ساتھ سارا زمانہ چاہیے
کہ زندہ رہنے کو کوئی تو بہانہ چاہیے
کوئی تو ہو جو ان رسموں سے اعلان بغاوت کرے
کہیں تو اندھیرے میں کوئی چراغ جلانا چاہیے
کب سے ویران پڑا ہے یہ آئینہ دل
سوچتا ہوں اب کوئی نیا چہرا سجانا چاہیے
بہت مدت سے ہے منتظر میرے دیس کی مٹی
چاید کہ اب مجھے لوٹ کے گھر جانا چاہئے
مجھے فقط اسی کے ساتھ کی تمنا تھی وقاص
مگر اسے میرے ساتھ ساتھ سارا زمانہ چاہیے
Comment