Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

سرمد صہبائی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • سرمد صہبائی

    لمحہ لمحہ ہر اشارے پر سفر ہوتا رہا
    راستے بنتے گئے میں منتشر ہوتا رہا

    ڈھونڈتے ہو تم کہاں اس روز و شب کے درمیاں
    تھا زمانہ اور جو مجھ میں بسر ہوتا رہا

    شہر والے اپنے سائیوں میں سمٹ کر سو گئے
    چاند شب بھر ساتھ میرے در بدر ہوتا رہا

    رفتہ رفتہ دل کو آخر درد راس آتا گیا
    قطرۂ بے تاب سیپی میں گہر ہوتا رہا

    تھی تیری آہٹ کہ زینہ بن گئیں آنکھیں میری
    دھیان تھا روزن کھلا دل تھا کہ در ہوتا رہا

    بے خبر تھے لوگ سب جس زہر کی تاثیر سے
    دم بدم ہر جسم پر اس کا اثر ہوتا رہا

    تھا بدن نارِ تماشا آتشِ دیدار سے
    ہر نفس سینے میں گل ہو کر شرر ہوتا رہا

    دل میں تو سرمد عجب اک موسم نادید تھا
    جو تماشا تھا سرِ بامِ نظر ہوتا رہا
    شاہ حسین جیہناں سچ پچھاتا' کامل عِشق تیہناں دا جاتا

  • #2
    Re: سرمد صہبائی

    thanks for nice poetry
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: سرمد صہبائی

      Nice ,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

      Comment

      Working...
      X