:salam:
وہ لمحے
سوچ کی دہلیز پر ٹھہرے ہوئے ہیں
دسمبر کے مہینے میں
ہزاروں سال پہلے جب
ترے وعدے کے ہونٹوں نے
مری آنکھوں سے بہتی زندگی کے ہاتھ چومے تھے
مری بے رنگ باتوں کے کنارے
تم نے خوابوں کے سہارے اور اشکوں کے ستارے رکھ دیئے تھے
اور
ہوا کو اپنی چاہت کی حفاظت کا اشارہ کر دیا تھا
ہوا کی خنکیوں میں اب بھی تیری نرم باتیں
آہٹوں کا جال بُنتی ہیں
سماعت اب بھی تیرے قہقہوں کا شور سنتی ہے
خیال اب تک تمہاری اُنگلیوں سے
میرے دل کے سرخ آنسو پونچھتا ہے
نگاہیں برف کے پھیلے چمکتے کینوس پر جا بجا
تیری رفاقت کی ضرورت پینٹ کرتی ہیں
ٹھٹھرتے پانیوں کے تن پہ بکھری دھوپ
تیرا ہجر روتی ہے
کہاں ہوتی ہے تو
محبت کی سلگتی رہ گزاروں کے کناروں پر
دسمبر اب بھی تیرا منتظر ہے
ڈاکٹر ابرار عمر
وہ لمحے
سوچ کی دہلیز پر ٹھہرے ہوئے ہیں
دسمبر کے مہینے میں
ہزاروں سال پہلے جب
ترے وعدے کے ہونٹوں نے
مری آنکھوں سے بہتی زندگی کے ہاتھ چومے تھے
مری بے رنگ باتوں کے کنارے
تم نے خوابوں کے سہارے اور اشکوں کے ستارے رکھ دیئے تھے
اور
ہوا کو اپنی چاہت کی حفاظت کا اشارہ کر دیا تھا
ہوا کی خنکیوں میں اب بھی تیری نرم باتیں
آہٹوں کا جال بُنتی ہیں
سماعت اب بھی تیرے قہقہوں کا شور سنتی ہے
خیال اب تک تمہاری اُنگلیوں سے
میرے دل کے سرخ آنسو پونچھتا ہے
نگاہیں برف کے پھیلے چمکتے کینوس پر جا بجا
تیری رفاقت کی ضرورت پینٹ کرتی ہیں
ٹھٹھرتے پانیوں کے تن پہ بکھری دھوپ
تیرا ہجر روتی ہے
کہاں ہوتی ہے تو
محبت کی سلگتی رہ گزاروں کے کناروں پر
دسمبر اب بھی تیرا منتظر ہے
ڈاکٹر ابرار عمر
Comment