Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اوروصال - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اوروصال - ثمینہ راجہ


    شاعری، دریافت کا عمل تو ہے مگر بہت شعوری عمل نہیں
    جب ایک بحر میں یہ غزلیں پہلے پہل شائع ہوئیں تو احباب نے ان کو ایک فنی تجربہ قرار دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ 95ء اور96ء پورے دو سال کے دوران یہ بحر مجھ پر بری طرح طاری رہی ۔ سو میں نے یہ تمام غزلیں اورزیادہ تر نظمیں بھی اسی بحر میں لکھیں ۔ یہ ایک اچانک اور بے اختیار عمل تھا ۔ جبکہ ہیئت کا تجربہ شائد ایک شعوری عمل ہوتا ہے۔
    زندگی کا کوئی تجربہ جب شعر میں ڈھلتا ہے تو وہ تجربہ ہوتے ہوئے بھی تجربہ نہیں رہتا ۔ یعنی مرئی نہیں رہتا، غیرمرئی ہو جاتا ہے ۔ جیسے حقیقت میں صحرا عبور کرنا، یا دریا پار کرنا، یا جنگل سے گزرنا، یا محبت کرنا، یا مر جانا بھی تجربہ ہے ۔ اور خواب میں صحرا عبور کرنا، دریا پار کرنا، جنگل سے گزرنا، محبت کرنا اور مر جانا بھی تجربہ ہے ۔ پھر بھی دونوں میں واضح فرق ہے ۔ سو زندگی اگر حقیقت کا تجربہ ہے تو شاعری خواب کا ۔
    خواب کے اسرار نے انسان کو جسم سے ہٹ کر روح کے بارے میں سوچنے پر آمادہ کیا ۔ اور شاعری کے اسرار نے اسے کبھی دیوتاؤں کی رضا (ہومر) اور کبھی پیغمبری کا جزو (مولانا روم) بنا دیا۔
    میں نہیں جانتی جو میں لکھ رہی ہوں، یہ فن ہے یا نہیں ، تجربہ ہے یا نہیں ۔
    میں تو اتنا جانتی ہوں کہ
    میں وہ بتا رہی ہوں جو زندگی نے مجھے سکھایا ہے ۔ اور وہ سنا رہی ہوں جو شاعری نے میرے کان میں پھونکا ہے ۔ پڑھنے اورسننے والے اسے کیا سمجھتے ہیں، کیا مقام دیتے ہیں، یہ ان کا مسئلہ ہے ۔ محبت کی طرح شاعری بھی اپنا اپنا مسئلہ ہے


    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: اوروصال - ثمینہ راجہ


    تنہا، سر انجمن کھڑی تھی
    میں اپنے وصال سے بڑی تھی

    اک پھول تھی اور ہوا کی زد پر
    پھر میری ہر ایک پنکھڑی تھی

    اک عمر تلک سفر کیا تھا
    منزل پہ پہنچ کے گر پڑی تھی

    طالب کوئ میری نفی کا تھا
    اور شرط یہ موت سے کڑی تھی

    وہ ایک ہواےء تازہ میں تھا
    میں خواب قدیم میں گڑی تھی

    وہ خود کو خدا سمجھ رہا تھا
    میں اپنے حضور میں کھڑی تھی

    ***

    Comment


    • #3
      Re: اوروصال - ثمینہ راجہ


      ہمت مرا دل جو کھو رہا ہے
      یہ جسم بھی سرد ہو رہا ہے

      دشمن ہے مگر یہ کیسے کہہ دوں
      کچھ روز وہ دوست تو رہا ہے

      کیا رنج ہے جس کو اوڑھ کر دل
      پہلو میں خموش سو رہا ہے

      کالک تو نصیب پر لگی تھی
      معصوم ہے چہرہ دھو رہا ہے

      کیوں بھیگ رہی ہے رات میری
      کیا کوئی کہیں پہ رو رہا ہے

      اک خواب ہے جو امید کا بیج
      پھر آنکھ میں میری بو رہا ہے

      پھر خالق باد و آب و گل کا
      کونپل میں ظہور ہو رہا ہے

      اک آہ کے ساتھ جاگ اٹھے گا
      اس خاک میںشعلہ سو رہا ہے

      ***

      Comment


      • #4
        Re: اوروصال - ثمینہ راجہ


        گو سایہء دیں پناہ میں ہوں
        زندہ تو خود اپنی آہ میں ہوں

        اُس منزلِ خواب کی طلب میں
        مدت سے فریبِ راہ میں ہوں

        کیا وہ بھی مرا ہی منتظر ہے
        اک عمر سے جس کی چاہ میں ہوں

        باہر تو لگا ہے سنگِ مر مر
        میں دفن مگر سیاہ میں ہوں

        پھر شاخ پہ مجھ کو پھوٹنا ہے
        غلطاں ابھی خاک و کاہ میں ہوں

        غم دینے کو تو نے چُن لیا ہے
        خوش ہوں کہ تری نگاہ میں ہوں

        کیسے تری حیرتی نہ ٹھہروں
        گُم، انجم و مہر و ماہ میں ہوں

        جو عشق مثال بن چکا ہے
        اُس منزلِ غم کی راہ میں ہوں

        ***

        Comment


        • #5
          Re: اوروصال - ثمینہ راجہ


          اب پھول چنیں گے کیا چمن سے
          تو مجھ سے خفا، میں اپنے من سے

          وہ وقت کہ پہلی بار دل نے
          دیکھا تھا تجھے بڑی لگن سے

          جب چاند کی اشرفی گری تھی
          اک رات کی طشتری میں چَھن سے

          چہرے پہ مرے جو روشنی تھی
          تھی تیری نگاہ کی کرن سے

          خوشبو مجھے آ رہی تھی تیری
          اپنے ہی لباس اور تن سے

          رہتے تھے ہم ایک دوسرے میں
          سرشار سے اور مگن مگن سے

          یہ زندگی اب گزر رہی ہے
          کن زرد اداسیوں کے بن سے

          کیا عشق تھا، جس کے قصّے اب تک
          دہراتے ہیں لوگ اک جلن سے

          ***

          Comment

          Working...
          X