پوری طرح یاد نہیں کہ وہ کون سا موسم تھا، جب پہلی بار اس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر مہربان ہوئی ۔ بس اتنا یاد ہے، میں بہت تنہا تھی ۔ انسانوں سے بھری ہوئی دنیا میں، رشتوں ناتوں سے بھرے ہوئے گھر میں، مین تنہا تھی ۔ اور مین سوال کرتی تھی ۔ بہت سوال، اپنے آپ سے ۔ اور مین زندگی کو عجب شے خیال کرتی تھی ۔
ایک بے چین تلاش تھی میرے اندر، معلوم نہیں کی ۔ ایک کھَولتا ہوا عشق تھا، پتہ نہیں کس سے ۔ ایک جاں کیوا فراق تھا، خبر نہیں کس کا ۔ اس عالم ِ وحشت میں آدمی یا تارک الدنیا ہو جاتا ہے، یا شاعر ہو جاتا ہے ۔ سو میرے نصیب کہ خواب کے یا بیداری کے کسی الوہی لمحے میں، اس نے مجھے اپنے لیے چن لیا ۔ شاعری نے
اس نے میرے تپکتے ہوئے دل پر اپنا ٹھنڈک سے بھرا شبنمیں ہاتھ رکھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر جاگتا ہوا ذہن ،سوال کرتا ہے ۔ ہر دھڑکتا ہوا دل، نحبت کرتا ہے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر آدمی کی ایک تلاش ہوتی ہے ۔ ایک عشق ہوتا ہے ۔ ایک فراق ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کا ایک شہرِسبا ہوتا ہے ۔
پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے میرے شہرِسبا کی طرف لے گئی
ثمینہ راجہ
Comment