Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

شہرسبا - ثمینہ راجہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شہرسبا - ثمینہ راجہ


    پوری طرح یاد نہیں کہ وہ کون سا موسم تھا، جب پہلی بار اس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر مہربان ہوئی ۔ بس اتنا یاد ہے، میں بہت تنہا تھی ۔ انسانوں سے بھری ہوئی دنیا میں، رشتوں ناتوں سے بھرے ہوئے گھر میں، مین تنہا تھی ۔ اور مین سوال کرتی تھی ۔ بہت سوال، اپنے آپ سے ۔ اور مین زندگی کو عجب شے خیال کرتی تھی ۔

    ایک بے چین تلاش تھی میرے اندر، معلوم نہیں کی ۔ ایک کھَولتا ہوا عشق تھا، پتہ نہیں کس سے ۔ ایک جاں کیوا فراق تھا، خبر نہیں کس کا ۔ اس عالم ِ وحشت میں آدمی یا تارک الدنیا ہو جاتا ہے، یا شاعر ہو جاتا ہے ۔ سو میرے نصیب کہ خواب کے یا بیداری کے کسی الوہی لمحے میں، اس نے مجھے اپنے لیے چن لیا ۔ شاعری نے

    اس نے میرے تپکتے ہوئے دل پر اپنا ٹھنڈک سے بھرا شبنمیں ہاتھ رکھا ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر جاگتا ہوا ذہن ،سوال کرتا ہے ۔ ہر دھڑکتا ہوا دل، نحبت کرتا ہے ۔ اس نے مجھے بتایا کہ ہر آدمی کی ایک تلاش ہوتی ہے ۔ ایک عشق ہوتا ہے ۔ ایک فراق ہوتا ہے ۔ ہر آدمی کا ایک شہرِسبا ہوتا ہے ۔
    پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے میرے شہرِسبا کی طرف لے گئی


    ثمینہ راجہ

  • #2
    Re: شہرسبا - ثمینہ راجہ


    ترا نام

    ترا نام دن کے زوال پر مری روشنی

    ترا نام شام ِ سفر، ستارہء رہبری

    ترا نام شہر ِ ملال میں، کفِ دوستی

    ترا نام میری متاع ِ جاں، مری شاعری

    مجھے ہر پڑاؤ پہ چاہیئے، تری ہمدمی

    ***

    Comment


    • #3
      Re: شہرسبا - ثمینہ راجہ



      نہ شوق ہے، نہ تمنا، نہ یاد ہے دل میں
      کہ مستقل کسی غم کی نہاد ہے دل میں

      ہے الف لیلہ ولیلہ سی زندگی در پیش
      سو جاگتی ہوئ اک شہر زاد ہے دل میں

      جو ضبط چشم کے باعث نہ اشک بن پایا
      اس ایک قطرہء خون کا فساد ھے دل میں

      پھر ایک شہر سبا سے بلاو ا آیا ہے
      پھر ایک شوق سلیماں نژاد ھے دل میں

      ہے ایک سحر دلآویز کا اسیر بدن
      تو جال بنتی، کوئ اور یاد ہے دل میں

      تمام خواہشیں اور حسرتیں تمام ہوئیں
      مگر جو سب سے عجب تھی مراد ہے دل میں

      ***

      Comment


      • #4
        Re: شہرسبا - ثمینہ راجہ



        میں تمہارے عکس کی آرزو میں بس آٰ ئینہ ہی بنی رہی
        کبھی تم نہ سامنے آ سکے،کبھی مجھ پہ گرد پڑی رہی

        وہ عجیب شام تھی،آج تک میرے دل میں اس کا ملال ھے
        میری طرح جو تیری منتظر،تیرے راستے میں کھڑی رھی

        کبھی وقف ہجر میں ہو گئ کبھی خواب وصل میں کھو گئ
        میں فقیر عشق بنی رہی، میں اسیر یاد ہوئ رہی

        بڑی خامشی سے سرک کے پھر مرے دل کے گرد لپٹ گئ
        وہ رداےء ابر سپید جو ، سر کوہسار تنی رہی

        ہوئ اس سے جب میری بات بھی،تھی شریک درد وہ ذات بھی
        تو نہ جانے کون سی چیز کی میری زندگی میں کمی رہی

        ***

        Comment


        • #5
          Re: شہرسبا - ثمینہ راجہ


          بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی


          بڑی دیر میں یہ خبر ہوئی -- کوئی چال وقت ہی چل گیا
          نہ میں با خبر، نہ میں با کمال
          میں خوش گماں ۔۔ تھی اسی خیال سے شادماں
          کہ مرا ستارہ بھی گردشوں سے نکل گیا
          مگرایک رات ہوا چلی، تو ہوا کی سانس میں آگ تھی
          یہ گماں ہوا کہ لباس پرکوئی شمع جیسے الٹ گئی
          مری چھت سے برق لپٹ گئی
          مری نیند ایسے جھلس گئی ۔۔ مرا خواب اس لیے جل گیا،
          نہ وہ آنکھ میں رہی روشنی ۔۔ نہ وجود میں رہی زندگی
          یہ بدن جو آج تپیدہ ہے ۔۔ مری روح اس میں رمیدہ ہے
          مرے انگ انگ میں درد ہے
          یہی چہرہ جو کبھی سرخ تھا ۔۔ ابھی زرد ہے
          مرا رنگ کیسے بدل گیا؟
          نہیں دن سے کوئی بھی آس اب
          ہے اگر نصیب میں پیاس اب
          کسی ابر پارے کی چاہ میں ۔۔ کبھی سر اٹھا کے جو دیکھ لوں
          تو وہ گرم بوند ٹپکتی ہے ۔۔ کہ یہ جان تن میں تپکتی ہے
          مرا آسمان پگھل گیا
          نہیں غم نہیں ۔۔ کہ ہے میرے ماتھے پہ غم لکھا
          مگر اس سے بڑھ کے ستم ہوا
          کہ جو حرف مصحفِ دل پہ لکھا تھا عشق نے ۔۔ وہی مِٹ گیا
          کسی اختیار کا پھیلتا ہوا ہاتھ تھا ۔۔ کہ سمٹ گیا
          کوئی اعتبار کا تار تھا کہ جو کٹ گیا
          وہ جو اسم تھا کبھی وردِ جاں ۔۔ وہ الٹ گیا
          کوئی نقش تھا ۔۔ کسی اور نقش میں ڈھل گیا

          ***

          Comment

          Working...
          X