یوں ہی اُمیدِ زندگی دے کر، کون مجھ کو تباہ کرتاہے
یوں تو سب خیر باد کہتے ہیں، کون غم سے نباہ کرتا ہے
جانے گذری ہے اُس کے دل پر کیا، سسکیوں پہ بھی ضبط کرتا ہے
میں نے دیکھا کہ دل تیرا اکثر، جانے کیوں آہ آہ کرتا ہے
دل دھڑکنے کی بات کرتا ہے، سانس رُکنے کی بات کرتی ہے
اپنی ہستی کو نیستی جانے، اک تصور گناہ کرتا ہے
کیسا عالم ہے تیری ہستی کا، موت آخر کراہ جاتی تھی
زندگی بددُعا بنی شاید، وہ دُعا بے پناہ کرتاہے
جب دُعا بے پناہ کرتا تھا، زندگی بد دُعا سی لگتی تھی
جب دُعائوں سے باز آیا میں، حاجتیںتب دُعا کی پیش آئیں
دل کی خلوت میں ڈوب کر دیکھا، ٹمٹماتے چراغ کو پایا
اور جاکر قریب سے دیکھا، اک دیا آہ کا بلکتا تھا
پھڑپھڑاتا میں دیکھ کر اس کو، کچھ لرزتے ہوئے سے لہجے میں
میں نے پوچھاکہ بات کیا ہے میاں، کیوں لرزتا ہے پھڑپھڑاتا ہے
اپنی خاموش سی نگاہوں سے، دیر تک دیکھتا رہا مجھ کو
ایک لمبی سی آہ بھرکے وہ، اس قدر خاموشی سے کہنے لگا
کائناتِ دلِ یگانہ میں، ایک واحد دیا ہوں دیوانے
بجھ گیا گر میں ایسی حالت میں، ہوگی دنیا تیری یہاں بے نور
ایسی تاریکی تجھ میں چھائے گی، دور تک روشنی نہ پائے گا
گھٹ کے دم تیرا چیخ اٹھے گا، کوئی سن نے یہاں نہ آئے گا
اسی تاریک کائنات میں پھر تو، کھوکے رہ جائے گا کہ تکنے کو
نہ ہی تو ہوگا نہ ہی تیرا وجود، تیری ہستی بکھیری جائے گی
چاک تیرا جگر بھی ہووے گا، خون ابلے گا تیرا ہر ریشہ
خون کا رنگ بھی نہ پائے گا، ایک سیال سا اچھالے گا
تیری آہ و بکا کی وہ حالت، تیرے سینے پہ کوئی ہو پتھر
تیری آہیں بھی آخری ہوں گی، تیری سانسیں بھی آخری ہوں گی
خون کے آنسو تیرا رونا بھی، رائگاں جائے گا ہر اک لمحہ
جس جہاں سے تو چل کے آیا ہے، اُس جہاں کو تو لوٹ جائے گا
کچھ نہ ہونا ہی تھا وجود تیرا، پھر تو تیرا وجود پائے گا
دیدنی بھی نہیں رہے گی وہاں، اور سماعت کی نیستی ہوگی
تیرے احساس ختم ہوویں گے، ایک سناٹا چار سو ہوگا
تیری ہستی تیرا وجود و قرار، اسی سناٹے میں سمائیں گے
احمد نثارؔ
(سید نثار احمد)
یوں تو سب خیر باد کہتے ہیں، کون غم سے نباہ کرتا ہے
جانے گذری ہے اُس کے دل پر کیا، سسکیوں پہ بھی ضبط کرتا ہے
میں نے دیکھا کہ دل تیرا اکثر، جانے کیوں آہ آہ کرتا ہے
دل دھڑکنے کی بات کرتا ہے، سانس رُکنے کی بات کرتی ہے
اپنی ہستی کو نیستی جانے، اک تصور گناہ کرتا ہے
کیسا عالم ہے تیری ہستی کا، موت آخر کراہ جاتی تھی
زندگی بددُعا بنی شاید، وہ دُعا بے پناہ کرتاہے
جب دُعا بے پناہ کرتا تھا، زندگی بد دُعا سی لگتی تھی
جب دُعائوں سے باز آیا میں، حاجتیںتب دُعا کی پیش آئیں
دل کی خلوت میں ڈوب کر دیکھا، ٹمٹماتے چراغ کو پایا
اور جاکر قریب سے دیکھا، اک دیا آہ کا بلکتا تھا
پھڑپھڑاتا میں دیکھ کر اس کو، کچھ لرزتے ہوئے سے لہجے میں
میں نے پوچھاکہ بات کیا ہے میاں، کیوں لرزتا ہے پھڑپھڑاتا ہے
اپنی خاموش سی نگاہوں سے، دیر تک دیکھتا رہا مجھ کو
ایک لمبی سی آہ بھرکے وہ، اس قدر خاموشی سے کہنے لگا
کائناتِ دلِ یگانہ میں، ایک واحد دیا ہوں دیوانے
بجھ گیا گر میں ایسی حالت میں، ہوگی دنیا تیری یہاں بے نور
ایسی تاریکی تجھ میں چھائے گی، دور تک روشنی نہ پائے گا
گھٹ کے دم تیرا چیخ اٹھے گا، کوئی سن نے یہاں نہ آئے گا
اسی تاریک کائنات میں پھر تو، کھوکے رہ جائے گا کہ تکنے کو
نہ ہی تو ہوگا نہ ہی تیرا وجود، تیری ہستی بکھیری جائے گی
چاک تیرا جگر بھی ہووے گا، خون ابلے گا تیرا ہر ریشہ
خون کا رنگ بھی نہ پائے گا، ایک سیال سا اچھالے گا
تیری آہ و بکا کی وہ حالت، تیرے سینے پہ کوئی ہو پتھر
تیری آہیں بھی آخری ہوں گی، تیری سانسیں بھی آخری ہوں گی
خون کے آنسو تیرا رونا بھی، رائگاں جائے گا ہر اک لمحہ
جس جہاں سے تو چل کے آیا ہے، اُس جہاں کو تو لوٹ جائے گا
کچھ نہ ہونا ہی تھا وجود تیرا، پھر تو تیرا وجود پائے گا
دیدنی بھی نہیں رہے گی وہاں، اور سماعت کی نیستی ہوگی
تیرے احساس ختم ہوویں گے، ایک سناٹا چار سو ہوگا
تیری ہستی تیرا وجود و قرار، اسی سناٹے میں سمائیں گے
احمد نثارؔ
(سید نثار احمد)