غضب کا ہے طوفاں مچی ہےتباہی
خدا بھی خفا ہے خفا ناخُدا بھی
بہا لے گیا ہے گھروندوں کو پانی
بچی ہی نہیں ہے کوئی بھی نشانی
بلکتے ہیں بچے سسکتی ہیں مائیں
کہاں اب پناہ لیں کدھر کو سمائیں
اجل لے گئی ہے جنہیں وہ سُکھی ہیں
جو زندہ بچے ہیں وہی تو دُکھی ہیں
کسے اب پکاریںکوئی یہ بتا دے
مصیبت کے ماروں کو کوئی بچالے
یہ آفت ہے یا ہے بلا ناگہانی
عذابِ الٰہی کی ہے یہ نشانی
یہ قدرت کی جانب سے ہے اک اشارا
کوئی سر کشی اب نہیں ہے گوارا
چلا آ رہا ہے نیا ایک ریلا
تباہی مچانے کو کچھ ہے بچا کیا
بچی ہے جو نفرت اُسے اب مٹا دو
تعصب کی دیوار کو بھی گرادو
نکالے تھے جیسے مکیں سب گھروں سے
نکالو حرص کوبھی سب کے دلوں سے
سنا ہے کہ یونہی سنورتی ہیں قومیں
جو پڑتی ہے آفت سنبھلتی ہیں قومیں
کھلیں گے اُمیدوں کے پھر سے شگوفے
ہرے پھر سے ہوں گےجو مردہ ہیں جذبے
Comment