غزل
جو حال اپنا خراب ہو گا
قصور اُن کا جناب ہو گا
وہ دور ہم سے اگر رہے تو
نصیب اپنا خراب ہو گا
گمان اب تک یہی ہے دل میں
کبھی تو ہم سے خطاب ہو گا
بچھڑ کے اُن سے ہمارے دل میں
عجیب سا اضطراب ہو گا
خزاں کی رُت میں کہیں تو دیکھو
امید کا اک گلاب ہو گا
وہ آج پھر روبرو ہیں میرے
یہ خواب ہے یا سراب ہو گا
چلے ہیں جن منزلوں کی جانب
وہیں پہ رُکنا عذاب ہو گا
ق
فریبِ دنیا حسین ہے پر
سنا ہے اک دن حساب ہو گا
سیاہ نامے میں درج شاید
کوئی تو کارِ ثواب ہو گا
رحیم ہے رب، تو کیوں یہ واعظ
ڈرا رہا ہے عتاب ہو گا
زرقا مفتی
جو حال اپنا خراب ہو گا
قصور اُن کا جناب ہو گا
وہ دور ہم سے اگر رہے تو
نصیب اپنا خراب ہو گا
گمان اب تک یہی ہے دل میں
کبھی تو ہم سے خطاب ہو گا
بچھڑ کے اُن سے ہمارے دل میں
عجیب سا اضطراب ہو گا
خزاں کی رُت میں کہیں تو دیکھو
امید کا اک گلاب ہو گا
وہ آج پھر روبرو ہیں میرے
یہ خواب ہے یا سراب ہو گا
چلے ہیں جن منزلوں کی جانب
وہیں پہ رُکنا عذاب ہو گا
ق
فریبِ دنیا حسین ہے پر
سنا ہے اک دن حساب ہو گا
سیاہ نامے میں درج شاید
کوئی تو کارِ ثواب ہو گا
رحیم ہے رب، تو کیوں یہ واعظ
ڈرا رہا ہے عتاب ہو گا
زرقا مفتی
Comment