کبھی یا د آئے تو پو چھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
گئے موسموں کے وہ حسین لمحے
نہ جانے کیسے گذر گئے
ہم خواب بنتے ہی رہ گئے
اور چپ چاپ تم گذر گئے
وہ آہٹیں دل کی ڈھڑکنوں کی
کیا تم کو کبھی سنائی نہ دیں
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
ہتھیلیوں پہ جو نام لکھا تھا
وہ نام صرف تمہارا تھا
مگر یہ باتیں بن گئی ہیں ما ضی
کیا تم نے سب کچھہ بھلا دیا
مجھے کیوں ا تنا رلا دیا
کبھی یا د آئے تو پوچھنا
کبھی یا د آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
وہ نرم گوشہ جو دل میں تھا
کیوں اس میں جگہ نہ مل سکی
یہ گھڑیاں تو ہیں آنی جانی
گذر نہ جائے یہ زند گا نی
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
وہ کیسی فصل بہار تھی
نہ گل کھلے، نہ مہک بسی
اتر سکا نہ چا ند،دل بےقرار میں
نہ چاندنی ہی چٹک سکی
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
نہ جانے کیا کشش ہے تم میں
کہ ایک پل کو بھلا نہ پا ئیں
نہ بیدار لمحوں میں،نہ سوتے پل میں
مگر یہ کیا کہ بٹ گئے تم
یہاں ہیں راتیں، وہاں اجالا
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
وہ کیسی بے رخی تھی
کہ کچھہ بھی کہا نہ تم نے
تیری یا دوں میں گم رہے ہم
گذر گئیں کئی سنہری شا میں
ذرا سا کچھہ تم کلام کر تے
کہیں تو یہ اہتما م کر تے
کبھی یا د آئے تو پو چھنا
ذرا اپنی خلو ت شام سے
شاعرہ رابعہ اقبال رابی
ذرا اپنی خلوت شام سے
گئے موسموں کے وہ حسین لمحے
نہ جانے کیسے گذر گئے
ہم خواب بنتے ہی رہ گئے
اور چپ چاپ تم گذر گئے
وہ آہٹیں دل کی ڈھڑکنوں کی
کیا تم کو کبھی سنائی نہ دیں
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
ہتھیلیوں پہ جو نام لکھا تھا
وہ نام صرف تمہارا تھا
مگر یہ باتیں بن گئی ہیں ما ضی
کیا تم نے سب کچھہ بھلا دیا
مجھے کیوں ا تنا رلا دیا
کبھی یا د آئے تو پوچھنا
کبھی یا د آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
وہ نرم گوشہ جو دل میں تھا
کیوں اس میں جگہ نہ مل سکی
یہ گھڑیاں تو ہیں آنی جانی
گذر نہ جائے یہ زند گا نی
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
وہ کیسی فصل بہار تھی
نہ گل کھلے، نہ مہک بسی
اتر سکا نہ چا ند،دل بےقرار میں
نہ چاندنی ہی چٹک سکی
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
نہ جانے کیا کشش ہے تم میں
کہ ایک پل کو بھلا نہ پا ئیں
نہ بیدار لمحوں میں،نہ سوتے پل میں
مگر یہ کیا کہ بٹ گئے تم
یہاں ہیں راتیں، وہاں اجالا
کبھی یاد آئے تو پوچھنا
ذرا اپنی خلوت شام سے
وہ کیسی بے رخی تھی
کہ کچھہ بھی کہا نہ تم نے
تیری یا دوں میں گم رہے ہم
گذر گئیں کئی سنہری شا میں
ذرا سا کچھہ تم کلام کر تے
کہیں تو یہ اہتما م کر تے
کبھی یا د آئے تو پو چھنا
ذرا اپنی خلو ت شام سے
شاعرہ رابعہ اقبال رابی
Comment