اُس نے ہاتھوں میں مرے ایسے سما دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں نے بنا دی آنکھیں
وہ بھی کیا رات کہ شب بھر نا اندھیرا دیکھا
شمع بجھنے جو لگی اُس نے جلا دی آنکھیں
لوگ جب وجہِ سخن پوچھنے آئے مجھ سے
میں نے چالاکی سے شعروں میں چھپا دی آنکھیں
ضبط کی آگ میں جل جائیں کہ راکھ ہو جائیں
اشک نہ دیکھیں مری ضبط کی عادی آنکھیں
ہاں خد و خالِ رُخِ یار نہیں یاد مگر
جھوٹ کہتے ہیں جو کہتے ہیں بھلا دی آنکھیں
میں تو مشکل سے کیئے بیٹھا تھا قابو خود پہ
یوں ہوا پھر کہ مجھے اُس نے دکھا دی آنکھیں
ہم نے آنکھوں میں بسایا رُخِ جاناںلیکن،
ذہن کے سارے دریچوں میں سجا دی آنکھیں
دل مرا سادہ و بے رنگ بہت تھا پہلے
اِک مصور نے یہاں آکے بنا دی آنکھیں
گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں تیرے رستے پہ بچھا دی آنکھیں
جب بھی تھاما ہے قلم میں نے بنا دی آنکھیں
وہ بھی کیا رات کہ شب بھر نا اندھیرا دیکھا
شمع بجھنے جو لگی اُس نے جلا دی آنکھیں
لوگ جب وجہِ سخن پوچھنے آئے مجھ سے
میں نے چالاکی سے شعروں میں چھپا دی آنکھیں
ضبط کی آگ میں جل جائیں کہ راکھ ہو جائیں
اشک نہ دیکھیں مری ضبط کی عادی آنکھیں
ہاں خد و خالِ رُخِ یار نہیں یاد مگر
جھوٹ کہتے ہیں جو کہتے ہیں بھلا دی آنکھیں
میں تو مشکل سے کیئے بیٹھا تھا قابو خود پہ
یوں ہوا پھر کہ مجھے اُس نے دکھا دی آنکھیں
ہم نے آنکھوں میں بسایا رُخِ جاناںلیکن،
ذہن کے سارے دریچوں میں سجا دی آنکھیں
دل مرا سادہ و بے رنگ بہت تھا پہلے
اِک مصور نے یہاں آکے بنا دی آنکھیں
گل کسی طور میسر نہ ہوئے تو آخر
ہم نے جاناں تیرے رستے پہ بچھا دی آنکھیں
Comment