سچ کے آنگن میں
جب بھوک کا استر
حرص کی بستی میں جا بستا ہے
اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے
چھاج کی تو بات بڑی
چھلنی پنچ بن جاتی ہے
بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے
کوے کے سر پر
سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے
دہقان بو کر گندم
فصل جو کی کاٹتے ہیں
صبح کا اترن لے کر
کالی راتیں
سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں
مارچ ١٩‘ ١٩٧٤
جب بھوک کا استر
حرص کی بستی میں جا بستا ہے
اوپر کی نیچے‘ نیچے کی اوپر آ جاتی ہے
چھاج کی تو بات بڑی
چھلنی پنچ بن جاتی ہے
بکری ہنس چال چلنے لگتی ہے
کوے کے سر پر
سر گرو کی پگڑی سج جاتی ہے
دہقان بو کر گندم
فصل جو کی کاٹتے ہیں
صبح کا اترن لے کر
کالی راتیں
سچ کے آنگن میں جا بستی ہیں
مارچ ١٩‘ ١٩٧٤