Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات


    شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات

    ہر لفظ‘ اپنے عہد کے مجموعی اور اکائیاتی سماجوں سے‘ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اسے‘ اس عہد کے مجموعی‘ اور منی سماجوں کے اشخاص کی‘ انگلی پکڑنا ہوتی ہے۔ ان کے مزاج‘ حاجات‘ موجود صورت حال کے تحت‘ ترکیب پانے والا موڈ‘ عمومی‘ خصوصی اور حادثاتی لہجوں کی بھی عکاسی کرنا پڑتی ہے۔ اگر وہ ان حوالوں سے‘ دور رہیں گے تو معاملات کی‘ درست سے‘ نمائندگی کرنے سے قاصر رہیں گے۔ لفظ معاملے کو‘ اس کے عین مطابق بیان کرتے ہیں‘ انہیں ناصرف شخص کی‘ باڈی لینگوئج کو قاری کے رو بہ رو لانا ہوتا ہے‘ بلکہ اس ماحول اور سیچوئیشن کی بھی‘ تصویر کشی کرنا ہوتی ہے۔
    اس حوالہ سے دیکھا جائے‘ تو شاعر اور ادیب میں‘ ماہر نفسیات کی خصوصیت ہونی چاہیے‘ بلکہ یہ خصوصیت ان میں فطری طور پر‘ موجود ہوتی ہے۔ ہر بڑے یا چھوٹے شاعر کے ہاں‘ اس کے علاقہ کے ہر طبقہ اور شعبہ کے اشخاص کی‘ نفسیاتی کیمسٹری موجود ہوتی ہے۔ رو بہ رو عین ممکن ہے‘ گفتگو میں تکلف‘ شخصی اور قومی بھرم کی دیوار کھڑی ہو جائے۔ اصل کی پوشیدگی کی‘ ان گنت صورتیں نکل سکتی ہیں۔ ادب اس قوم کی فکر‘ رجحانات‘ میلانات‘ ترجیحات اور عمومی اور خصوصی عادات کا‘ عکاس ہوتا ہے۔ جان کیٹس کو ہی لے لیں‘ اس نے اپنے خطوط میں‘ جو اصطلاحات استعمال کی ہیں‘ وہ اس عہد کے رویوں کی عکاس ہیں۔ استاد غالب کے خطوط‘ ان کے عہد کے‘ شخصی اطوار کو واضح کرتے ہیں۔ میر صاحب کا ہر شعر‘ اپنے عہد کے شخص کے‘ سوچ اور ہجانات کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ یہ سب‘ دانستگی کا حامل نہیں ہوتا‘ دانستگی کی صورت میں‘ ادب کا حقیقی لطف‘ ہی بے لطف ہو جاتا ہے۔

    شکیب جلالی کا کرب‘ ذات کا کرب اپنی اصل میں‘ سوسائٹی کا کرب ہے۔ اس جیون کا کرب ہے‘ جس میں اس نے‘ زندگی کے لمحات گزارے۔ اس کا کلام‘ لوگوں کے رویوں کی عکاسی کرتا ہوا‘ محسوس ہوتا ہے۔ اس کی ہم کلامی میں بھی‘ اس عہد کا شخص‘ چلتا پھرتا نظر آتا ہے۔ اس کے اندازواطوار کا‘ باخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ میری بدقسمتی یہ ہے‘ کہ وہ میرے ہی عہد کا شاعر ہے‘ اور میں اسے ذاتی طور پر نہیں جانتا۔ میری اس سے‘ کبھی ہیلو ہائے نہیں رہی۔ میں نہیں جانتا‘ فکری و لسانی حوالہ سے‘ اتنے اعلی پائے کے شاعر کو‘ کیوں اور کس جرم کی پاداش میں‘ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔
    احمد ندیم قاسمی کے انتہائی مختصر اور ڈنگ ٹاپاؤ ابتدائیے سے‘ بس اتنا معلوم ہوتا ہے‘ کہ انہیں شکیب جلالی کی بیوہ محترمہ محدثہ خاتون نے‘ جملہ مواد بھجوا دیا۔ اس مواد میں خطوط اور نثری یاد داشتیں بھی رہی ہوں گی‘ یا الله جانے کیا کچھ‘ رہا ہو گا۔ چلو کچھ مواد ردی نہ چڑھا۔ کیا کچھ رہا ہو گا‘ کوئی نہیں جانتا۔ اس معاملے کی‘ الگ سے تحقیق کرنے کی ضرورت کو‘ بہرطور نظرانداز نہیں ہونا چاہیے۔ ابتدائے میں کاغذات کا ایک انبار‘ اپنے اندر بڑی گرہیں اور معنویت کا ایک انبار رکھتا ہے۔ روشنی اے روشنی‘ انبار نہیں ہے۔ مجموعہ کل صرف ١٥٩ صفحات پر مشتمل ہے۔ کلام ص: ١٣ سے شروع ہوتا ہے۔
    شکیب جلالی کو‘ انسانی رویوں کو کاغذ کے سپرد کرنے کا‘ ڈھنگ خوب آتا ہے۔ مجموعے کی پہلی ہی غزل کا‘ یہ شعر ملاحظہ فرمائیں۔ اس کا لسانی طور اپنی جگہ‘ لیکن شخص کو بڑی ہنر مندی سے‘ وضح کیا ہے۔ یہ کسی اجنبی معاشرے کا شخص نہیں ہے‘ ایسے اشخاص سے‘ ہر روز ملاقات ہوتی رہتی ہے۔
    یہ اور بات کہ وہ لب تھے پھول سے نازک
    کوئی سہہ نہ سکا‘ لہجہ ایسا کرخت تھا
    وہ لب: پھول سے نازک
    دونوں مرکب‘ شخص کے کارگزاری سے متعلق اجزا‘ کی مصوری کر رہے ہیں۔
    مستعمل تشبیہ ہے۔
    ان کا تعلق بصارتی آلات سے ہے
    کرخت لہجہ: انداز تکلم کو ظاہر کر رہے ہیں۔
    سماعی آلات سے متعلق مرکب ہے
    کوئی سہہ نہ سکا: ردعمل کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔
    ذرا غور کرنے سے‘ اطراف کی باڈی لینگوئج‘ آنکھوں کے سامنے‘ گھوم گھوم جاتی ہے۔
    بڑے لوگوں کو ایک طرف رکھیں‘ کہ وہ کتنے غیرت مند‘ اور غیرت مندی کی کس سطح پر کھڑے ہیں۔ عموم کس مقام پر کھڑے ہیں‘ یا ان کی شخصیت کی ساخت کیسی ہے‘ اس کا تجزیہ بھی‘ شکیب کے ہاں ملتا ہے۔ عموم پر نہ رکھیں‘ شکیب پر ہی اپلائی کریں‘ یہ شعر اس ذیل میں یہ بول رہا ہے۔
    مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    جس طرح سایہءدیوار پہ دیوار گرے
    مجھے گرنا ہے: حالات کا جبر
    باغیرت شخص کا ردعمل: میں اپنے ہی قدموں میں گروں
    سایہءدیوار پہ دیوار گرے: یہ تشبیہ تو ہے ہی‘ لیکن معاملے کو تجسیم دے دی گئی ہے۔

    شخصی نفسیاتی کی عکاسی‘ اس سے بڑھ کر کس طرح ہو گی۔
    اسی قماش کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔
    خوددار ہوں کیوں آؤں در اہل کرم پر
    کھیتی کبھی خود چل کے گھٹا تک نہیں آتی
    خوددار ہوں
    کیوں آؤں
    در اہل کرم پر
    کھیتی
    کبھی خود چل کے
    گھٹا تک نہیں آتی
    خوددار ہوں: شخص کا فطری وصف
    یہ وصف‘ دست سوال دراز کرنے کی‘ راہ کی دیوار بنا رہتا ہے۔ ہمارے‘ اہل کرم کی فطرت ہے‘ کہ وہ حق بھی‘ بلاعوضانہ نہیں دیتے‘ جس کے باعث‘ نہ اہل کرم کے ہاتھ کچھ لگتا ہے‘ اور ناہی حق دار‘ اپنا حق لے پاتا ہے۔ کیا اہل کرم دیکھ نہیں رہے ہوتے‘ کہ کون کس حال میں ہے۔ اگر خود سے‘ دان کریں گے تو ہی‘ اہل کرم کے زمرے میں آسکیں گے۔ شکیب نے بلا دلیل بات نہیں کی۔ دوسرے مصرعے میں‘ اپنے کہے کی دلیل پیش کی ہے۔ گویا دو مترادف درج کیے ہیں۔
    خوددار: کھیتی
    اہل کرم : گھٹا
    خوداری شخصیت کا وہ وصف ہے‘ جو شخص کو جھکنے نہیں دیتا‘ اور یہ اس کو کسی بھی سطح پر‘ ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا۔

    یہ شعر دیکھیے‘ دو طبقوں کی نفسیات واضح کر رہا ہے۔
    ہم سفر چھوٹ گیے راہنما روٹھ گیے
    یوں بھی آسان ہوئی منزل دشوار یہاں
    ہم سفر : رشتہ دار‘ دوست یار‘ بیوی‘ اولاد
    ان سب کے رویوں کا عملی مطالعہ کریں۔

    زیست کی راہوں کی دیوار بنے رہتے ہیں۔ خیر میں روکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔
    پڑے وقت میں نظر نہیں آتے۔ پیٹھ موڑ جاتے ہیں۔
    راہنما : مقتدرہ طبقے‘ مولوی‘ شیوخ‘ استاد
    کبھی سیدھی راہ نہیں دکھائیں گے۔ ذرا برعکس کرو‘ یا انحراف کرو‘ طیش میں آ جائیں گے۔ یہ اپنی اصل میں‘ منزل کی راہ کی سربہ فلک دیوار ہیں۔ شکیب نے سماجی مثلث کی نفسیات کی بڑی عمدگی سے تصویر کشی کی ہے۔
    بظاہر بڑا سادہ سا شعر ہے۔
    پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
    پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو
    یہ شعر‘ جتنا سادہ نظر آ رہا ہے‘ اتنا سادہ نہیں ہے۔ بلا کی طرح داری لیے ہوئے ہے۔ شخص کے مخصوص رویے کو‘ اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
    غور کریں‘ نرگسیت کا عنصر لیے ہوئے ہے۔

    وارفتگی کی وضاحت کر رہا ہے۔
    صنف مخالف کے حوالہ سے‘ انسانی فطرت کا عکاس ہے۔
    فوری اور بعد کے ردعمل کی‘ وضاحت کر رہا ہے۔
    یاد بڑا مضبوط انسانی رویہ ہے۔ اس کی اہمیت اور حیثیت کےمطابق‘ ردعمل سامنےآتا ہے۔
    بڑے کمال کا‘ شکیب نے شعر نکالا ہے۔ انسان کے مجموعی رویے کی‘ بڑی ہنرمندی اور صنعت کاری سےعکاسی کی ہے۔
    برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
    انہیں تو دن کا بھی سایا دکھائی دیتا ہے
    برا نہ مانیے: کلمہءمخاطبہ ہے۔
    انہیں تو: کلمہءطنزیہ ہے۔
    دن کا سایا: لایعنی‘ بےسروپا‘ اور انہونی باتیں
    دکھائی دینا: کہتےرہنا بکتےرہنا چھوڑتے رہنا
    زمانے کی نفسیات کی‘ بڑے شان دار انداز میں‘ عکاسی کی گئی ہے۔
    سوسائٹی کی بےحسی کا ماتم ملاحظہ ہو
    :
    یہ آدمی ہیں کہ سائے ہیں آدمیت کے
    گزر ہوا ہے مرا کسی اجاڑ بستی میں
    !
    عہد کے‘ ترکیب پانے والے نفسیاتی حدود اربعےکو پیش کر دیا ہے۔ آدمیت کے سائے اور اجاڑ بستی‘ ایسے مرکبات کا استعمال کرکے‘ بڑے زور کی چوٹ لگائی ہے۔ انسانوں کی بستی اور یہ صورت حال۔ اظہار حیرت کیا جا رہا ہے۔
    اجاڑ بستی میں
    !
    ذرا غور فرمائیں‘ کیا کہہ دیا گیا ہے۔
    چلتے چلتے دو شعر اور ملاحظہ فرما لیں۔ شکیب نے بڑی ہنرمندی سے‘ انسانی نفسیات سے مناسبت رکھتے‘ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔
    سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
    دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
    دیکھو تو: ظاہرداری
    اک شکن بھی نہیں
    سب اچھا‘ ٹھیک ٹھاک‘ درست‘ عیش‘ موج‘ کچھ بھی تو نہیں‘ پاک صاف‘ ہیرا پھیری سے بالاتر‘ ایک نمبری

    سوچو تو: باطنی حالت‘ کیفیت
    تمام روح سلوٹوں سے بھری ہے
    تمام کا استعمال‘ اس لیے ہوا ہے‘ کہ جزوی نہ سمجھ لیا جائے۔ یعنی پوری کی پوری
    سلوٹ: مفاہیم کے لیے کئی پہلو مدنظر رکھنا ہوں گے
    :
    ذہنی الجھاؤ‘ طرح داری‘ پریشانی اور دکھ کی کیفیت‘ غلاظت‘ بےایمانی‘ دونمبری
    گویا انسان جو دکھائی دیتا ہے‘ باطنی سطح پر‘ وہ نہیں۔ دوغلےپن کا شکار ہے۔ اس حوالہ سے‘ انسان کی جانچ ناممکن ہے۔ وہ جو نظر آ رہا ہے‘ یا کہہ رہا ہے‘ اس کے مطابق‘ افعال کا سرزد ہونا ضروری نہیں۔

    انسان کی نفسیات ہے؛ کہ وہ ہم خیال لوگوں کے ساتھ رہ کر ہی‘ آسودگی محسوس کرتا ہے۔ ایک شخص کو‘ ایک ایسے باغ میں بیٹھا دیں‘ جہاں سو طرح کے‘ خوش رنگ اور خوش الحان طیور ہوں‘ مگر شخص وہاں کوئی نہ ہو‘ ٹک نہیں پائے گا۔ شکیب کا کہنا ہے:
    ہم جنس اگر ملے نہ کوئی آسمان پر
    بہتر ہے خاک ڈالیے ایسی اڑان پر
    اڑان سے واضح ہو رہا ہے‘ کہ شاعر کی مراد فکر ہے‘ جب کہ لفظ آسمان‘ سربلندی کے معنی دے رہا ہے۔ فکری مماثلت رکھنے والوں کے لیے‘ لفظ ہم جنس کا استعمال ہوا ہے۔
    درج بالا معروضات سے‘ جہاں یہ واضح ہو رہا ہے‘ لفظ شخص اور اس سے متعلقہ معاشرت کی نمائندگی کرتے ہیں‘ وہاں انسان کی آفاقی فطرت کو بھی‘ اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں۔ شکیب جلالی کی شاعری‘ انسان اور اس کی فکر کی شاعری ہے۔ وہ انسان‘ اور اس کے معاملات کے سرزد ہونے کی‘ نفسیات سے خوب خوب آگاہ ہے۔ اسے شعر کی زبان پر‘ دسترس حاصل ہے۔ بیان کےانداز سے بھی خوب خوب آگاہ تھا۔ ناقدروں کی بستی میں‘ وہ بےمایہ سہی‘ لیکن سخن شناسوں میں اعلی پائے کا شاعر ضرور قرار پائے گا۔




  • #2
    Re: شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات

    Ach Tehreer Ha Dr Sahib
    :(

    Comment


    • #3
      Re: شکیب جلالی کی زبان اور انسانی نفسیات

      tovajo aur is mohabat ke liay bari bari meharbani

      Comment

      Working...
      X