کس منہ سے
چلم بھرتے ہات‘ اٹھ نہیں سکتے
ہونٹوں پر فقیہ عصر نے
چپ رکھ دی ہے
کتنا عظیم تھا وہ شخص
گلیوں میں
رسولوں کے لفظ بانٹتا رہا
ان بولتے لفظوں کو‘ ہم سن نہ سکے
آنکھوں سے‘ چن نہ سکے
ہمارے کانوں میں‘ جبر کی پوریں رہیں
آنکھوں میں خوف نے پتھر رکھ دیے
ہم جانتے ہیں‘ وہ سچا تھا
قول کا پکا تھا
مرنا تو ہے‘ ہمیں یاد نہ رہا
ہم جانتے ہیں اس نے جو کیا
ہمارے لیے کیا
جیا تو ہمارے لیے جیا
کتنا عجیب تھا
زندہ لاشوں کا دم بھرتا رہا
مصلوب ہوا ہم دیکھتے رہے
نیزے چڑھا ہم دیکھتے رہے
مرا جلا راکھ اڑی ہم دیکھتے رہے
اس کے کہے پر دو گام تو چلا ہوتا
کس منہ سے اب
اس کی راہ دیکھتے ہیں
ہم خاموش تماشائی
مظلومیت کا فقط ڈھونگ رچاتے ہیں
بے جان جیون کے دامن میں
غیرت کہاں جو رن میں اترے
یا پھر
پس لب اس کی مدح ہی کر سکے
چلو دنیا چاری ہی سہی
آؤ
اندرون لب دعا کریں
ان مول سی مدح کہیں