Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب



    اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب


    شکریہ جناب
    آپ نے توجہ فرمائی‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔
    الله آپ کو خوش رکھے۔
    مضمون سے متعلق چند معروضات پیش ہیں۔
    ١
    - مضمون کا ایک بار پھر بڑے غور اور ٹھنڈے دل سے مطالعہ فرمائیں۔
    ٢
    - مضمون ڈاکٹر اقبال سے متعلق نہیں‘ ان کی کہی ہوئی ایک بات سے متعلق ہے۔
    ٤
    - الله حاجت روا ہے یا حاجت مند؟
    ٥
    - الله خبیر اور بصیر ہے‘ یا نہیں؟
    ٦
    - کیا الله آپ کو اور آپ کے کیے کو‘ آپ سے زیادہ نہیں جانتا۔
    ٦
    - میں ہوں‘ کو اس سطح پر لے جایا جا سکتا ہے‘ کہ اس برابری یا احساس برتری پر‘ الله تسلیم بہ خم ہو۔
    ٧
    - اگر آپ
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے
    کی تشریح فرما دیں گے احسان مند رہوں گا۔
    خودی کتنی ہی بلند کیوں نہ کر لو‘ اس سطح پر تو زمین کی مقتدرہ قوتیں آنے کو تیار نہیں ہوتیں۔
    توجہ فرمائی کا شکرگزار ہوں۔
    ان سوالوں کا جواب خود سے پوچھیے
    ۔۔۔۔۔۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا۔۔۔۔۔
    اگر آپ کو درست لگے تو آپ پوسٹ خارج کر دیں۔


  • #2
    Re: اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب

    Originally posted by Dr Maqsood Hasni View Post


    اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب


    شکریہ جناب
    آپ نے توجہ فرمائی‘ دل و جان سے احسان مند ہوں۔
    الله آپ کو خوش رکھے۔
    مضمون سے متعلق چند معروضات پیش ہیں۔
    ١
    - مضمون کا ایک بار پھر بڑے غور اور ٹھنڈے دل سے مطالعہ فرمائیں۔
    ٢
    - مضمون ڈاکٹر اقبال سے متعلق نہیں‘ ان کی کہی ہوئی ایک بات سے متعلق ہے۔
    ٤
    - الله حاجت روا ہے یا حاجت مند؟
    ٥
    - الله خبیر اور بصیر ہے‘ یا نہیں؟
    ٦
    - کیا الله آپ کو اور آپ کے کیے کو‘ آپ سے زیادہ نہیں جانتا۔
    ٦
    - میں ہوں‘ کو اس سطح پر لے جایا جا سکتا ہے‘ کہ اس برابری یا احساس برتری پر‘ الله تسلیم بہ خم ہو۔
    ٧
    - اگر آپ
    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے
    کی تشریح فرما دیں گے احسان مند رہوں گا۔
    خودی کتنی ہی بلند کیوں نہ کر لو‘ اس سطح پر تو زمین کی مقتدرہ قوتیں آنے کو تیار نہیں ہوتیں۔
    توجہ فرمائی کا شکرگزار ہوں۔
    ان سوالوں کا جواب خود سے پوچھیے
    ۔۔۔۔۔۔خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا۔۔۔۔۔
    اگر آپ کو درست لگے تو آپ پوسٹ خارج کر دیں۔


    سب سے پہلے ایک سوال
    الگ سے تھریڈ بنانے کی ضرورت کیوں پیش آگئی


    ٢- مضمون ڈاکٹر اقبال سے متعلق نہیں‘ ان کی کہی ہوئی ایک بات سے متعلق ہے۔

    کیا یہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔۔۔
    مجھے پتہ ہے آپ کی تحریر اقبال صاحب پہ مضمون نہیں تھا

    بہت معذرت کے ساتھ آپ نے میری پوسٹ میں سے بہت سی چیزوں کو گول کردیا ۔۔
    میں نے آپ کی خواہش کے مطابق
    ایک بار آپ کی پوسٹ کو پڑھ لیا ہے

    اور اس کے بعد پھر سے اپنے ریپلائی کو ۔۔

    اور میرا جواب اب بھی وہی ہے ۔۔۔

    جہاں تک بات ہے شعر کی تشریح کی وہ اگر کرنی ہوتی تو میں پہلے ہی کردیتا ۔۔
    میں نے پہلے بھی عرض کیا ۔۔
    کہ اقبال نے جہاں اپنی خودی کو بیان فرمایا ہے ۔۔
    اسی محل وقوع میں ۔۔ اس شعر کو دیکھیں ۔۔۔
    تحقیق جاری رکھیں ۔۔
    ضرو جواب ملے گا۔۔۔
    جاتے جاتے صرف اتنا کہوں گا

    کہ آپ کے باقی بھی اقبال کے تھریڈز دیکھے ۔۔۔
    ایک پل کے لیے خود سوچیں جب اقبال ۔۔ انسانیت کو مقصود فطرت سے آگاہی دیتے ہیں ۔۔۔
    تو کیا وہ دوسری طرف ۔۔۔ اسے خدا کے مقابلے میں کھڑا کریں گے ۔۔ یا بغاوت کی تعلیم دیں گے ۔۔۔






    Comment


    • #3
      Re: اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب


      آپ سے اپنی پچھلی پوسٹ پڑھنے کی ایک بار پھر سے گذارش ہے


      Originally posted by Baniaz Khan View Post
      ڈاکٹر صاحب
      آپ واقعی بہت اچھا لکھتے ہیں ۔۔ وقتا فوقتا میں آپ کے مضامین پڑھتا ہی رہتا ہوں ۔۔۔
      تہمید کے لحاظ سے آپ نے بہت اچھا اسٹارٹ لیا اور کم و پیش آپ کا ہر پوائنٹ ہی اپنی جگہ مستحکم ہے ۔۔
      لیکن یہاں سے جہاں آپ یہ بات لکھ رہے ہیں

      ’’انسان کی مرضی‘ خدا کی مرضی کے ماتحت ہے۔ خدا کی مرضی‘ انسان کی مرضی کے ماتحت نہیں۔
      ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر‘ شرک سے لبریز ہے اور میں ہوں‘ کو اجاگر کرتے کرتے‘ فرعونیت کی طرف لے جاتا ہے۔ فرعون بھی یہی گمان رکھتا تھا‘ اپنی اس کج فہمی کی وجہ سے‘ ہلاکت سے دوچار ہوا۔ ایک عام آدمی کیا‘ نبی رسول بھی‘ اس طرح کی سوچ‘ نہیں سوچ سکتا۔ وہ اپنی مرضی تابع رکھنے اور ازن پر سربہ خم کرنے‘ کی صورت میں ہی‘ نبی ہے۔ بندہ بھی‘ تب بندہ ہے‘ جب وہ خدا کی مرضی کو ہی‘ حرف آخر‘ دل و دل و جان سے جانتا ہے۔‘‘

      میں صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گا ۔۔ کہ آپ خودی کو صرف و صرف جھوٹی انا کے تابع ہی کیوں لے رہے ہیں ۔۔۔ کیا ایک انسان کا پندار کوئی چیز نہیں ۔۔
      دوسری بات ۔۔۔ شعر آپ نے کیا پیش کیا ہے ۔۔ اس پر فرعون ۔۔ اور اس قبیل کے لوگوں کی مثال ۔۔ دے کر ۔۔ آپ نہیں سمجھ رہے کہ ۔۔ یہاں آپ کوتاہی کررہے ہیں ۔۔
      کہاں اقبال کا یہ شعر ۔۔ خودی کو کر بلند اتنا ۔۔ کہاں ۔۔ فرعونیت کی جھوٹی ۔۔ انا ۔۔ ظلم سے بھری غرض ۔۔ ۔۔

      یہاں میں آپ سے ایک سوال کرنا چاہوں گا۔۔۔
      کیا خیال ہے یا کیا تبصرہ کریں گے آپ اس بارے میں کہ ۔۔ انسانیت کی ہدایت کے لیے ۔۔۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار ۔۔ تک ۔۔ نبی بھیجے گئے ۔۔۔۔

      ایک نبی بھی کافی ہوسکتا تھا ۔۔۔۔ سب کچھ اسی کو دیا جاسکتا تھا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔
      اگر ایک کافی نہیں تھا۔۔۔ تو آخری نبی کی کے بعد پابندی کیوں ۔۔

      بلفرض معذرت قبل از جواب ۔۔۔
      کہ آپ کہ کہتے ہیں کہ خدا بہتر جانتا ہے ۔۔ ہم نہیں سمجھ سکتے ۔۔ یا جان سکتے ۔۔۔۔
      تو پھر علم کی معیاد کیا ۔۔۔ علم فرض کیوں ۔۔ فرض تو کتنا فرض ۔۔
      اور ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ ہاں ٹھیک خدا بہتر جانتا ہے ۔ مگر کچھ بہتر خدا کے ہی طفیل میں بھی جان گیا ہوں ۔۔ ۔ تب ۔۔۔

      اس کے بعد آپ فرماتے ہیں
      ’’
      عبث ہے شکوہءتقدیر یزداں
      تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے
      خودی کی سربلندی کے حوالہ سے‘ یہ شعر پہلے شعر سے قربت رکھا ہے۔ میں ناہیں سبھ توں‘ کے حوالہ سے‘ یہ درست ہے۔ ڈاکٹر اقبال اس نظریہ کے قائل نیہں ہیں اس لیے‘ اس پر‘ میں ہوں کا اطلاق ہوتا ہے۔ خودی کے تابع ہونے کی صورت میں‘ یزداں کی مرضی کا تابع ہے۔ کیسا‘ کس طرح اور کتنا طے کرنے کا حق‘ یزداں کے پاس ہی رہتا ہے۔ یہ شعر اس مفہوم کی طرف لے جاتا ہے کہ یزداں تقدیر کا معاملہ اپنی نہیں‘ اس کی مرضی اور ایما پر طے کرے‘‘

      سر جی ۔۔۔ اس میں آپ کیسے میں نہیں سب توں ۔۔ اور میں ۔۔ غالب ۔۔ کا گمان لے آئے ہو ۔۔ بلکہ آپ تو یقین سے کہہ رہے ہو ۔۔۔
      کیسے ۔۔۔ آپ کی علمی قابلیت ۔۔ میرے لیے ہمیشہ ۔۔ متاثر کن رہی ہے ۔۔ پر یہاں ایک قابل شخص کو میں کس روپ میں دیکھ رہا ہوں ۔۔ کیوں صرف یہی معانی و مفہوم یہی فلفسہ کیوں نظر آیا اس شعر کا ۔۔۔
      ایک طرف ہمارے ہاں ۔۔ یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے ۔۔۔
      تو کیا ۔۔ آپ اس بات پر یقین نہیں رکھتے
      عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی ۔۔۔

      چلیں ایک اور سنیں ۔۔
      جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی
      اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو

      بڑا ہی مشہور شعر ہے ۔۔
      کیا یہاں اقبال صاحب قرآن کی تعلیم دیتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔۔
      یا آپ اسے بھی یہاں بغاوت سے تعبیر کریں گے ۔۔۔۔

      ٹائم کی کمی کی وجہ سے بات کو سمیٹتے ہوئے آخر میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا۔۔۔کہ ۔۔
      سب سے پہلے تو امید یہ ہے کہ اسے بات کو آپ ایک علمی اختلاف کی نظر سے دیکھیں گے ۔۔
      اور اپنے پوائنس سے ضرور آگاہ کریں گے ۔۔

      اور باقی آپ سے پوسٹ کو چھوڑتے ہوئے جہاں آخر میں آپ سارتر ، نٹشے کا حوالہ دے رہے ہیں
      تو کیا ہمارے قارئین ان کی ہسٹری سے واقف ہیں ۔۔۔ یا ان ناموں سے صرف اتنی دلیل کی امید ہے کہ یہ یہودی و عیسائی تھے ۔۔۔۔
      اور سب سے اہم بات ۔۔ کیا ہمارے لیے یہ لازم نہیں ۔۔ کہ ہم اپنے علم سے کسی بھی لفظ یا شعر کے مفہوم کو بیان کرنے سے پہلے خود شاعر کا وہ مفہوم دیکھنے کی زحمت کریں ۔ جو اس نے کبھی خود پیش کیا ہو۔۔
      اقبال صاحب پر تحقیق کے دوران ۔۔ ان ہی کے قلم سے لفظ خودی کی تعریف بھی مری نظروں سے گذری ہے ۔۔ اور وہ ہرگز اس مفہوم کو اجاگر نہیں کرتی جو یہاں آپ نے پیش کیا ہے

      یہ چند لائنیں ۔۔ آخر میں جو پیش کررہا ہوں
      یہ ہرگز آپ کے لیے نہیں ہیں ۔۔ بلکہ شاید اس پوسٹ سے بھی انکا کوئی تعلق نہیں ۔۔
      اس ریپلائی کو ٹائپ کرتے ہوئے ایک نیٹ فرینڈ نے پوچھا کے کیا کررہے ہو۔۔
      تو جواب کے بعد ۔۔ اس نے پوسٹ کیں ۔۔
      سوچا لگے ہاتھوں ان کو بھی اردو میں لکھ لیتا ہوں
      آپ چاہیں تو ایڈٹ کردونگا۔۔۔۔

      چمگادڑوں کی ٹوک سے سورج کو کیا ضرر
      کتوں کے بھونکنے سے بُھجا ہے کبھی قمر ؟
      اندھا ہزار کہتا رہے دن کو رات ہے
      کیا مان لے گا اس کو ۔۔ جو ہے صاحب نظر ؟
      حوض کے مینڈکوں کا ہے دریا سے ربط کیا ؟
      کرگس کے علم میں کہاں شاہین کی راہ گذر
      تنقید آسماں پہ بھنگی کرے تو کیا
      خود اپنے منہ پہ آتا ہے تھوکے جو چاند پر
      ناپاک سوچ کو کہاں پاکیزگی سے شغل
      گلقند کے مزے کی گدھے کو کیا ہے خبر






      Comment


      • #4
        Re: اقبال کی خودی اور پیغام کے پیارے پیارے خاں صاحب

        :nail:
        :(

        Comment

        Working...
        X