اقبال کا فلسفہءخودی
اقبال نے زندگی‘ کائنات‘ مظاہر‘ مرئی‘ غیر مرئی‘ ازل‘ ابد غرض ہر شے اور ذی روح کو‘ خودی کی عینک سے دیکھا ہے۔ جہاں خودی کا عنصر غالب دیکھتے ہیں اسے پرتحسین نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک وجود کی آزادی اور بقا خودی کی مرہون منت ہے۔ جہاں کہیں اس میں کجی‘ کم زوری اور غیرمتوازن عناصر دیکھتے ہیں‘ خودی کو الزام دیتے ہیں۔ وہ تمام ارتقائی مراحل کے بنیادی تحرک میں‘ خودی کی کارفرمائی کا عمل دخل قرار دیتے ہیں۔ اقبال کے فلسفہءخودی کے پس منظر میں سات امور کارفرما نظر آتے ہیں۔
١۔ شخص کی بےقدری‘ بےچارگی اور بےبسی
٢۔ شخص کی فکری اور عملی غلامی
٣۔ طاقت ور طبقوں کی جیریت اور استحصالی حیلے اور حربے
٤۔ جبریت اور استحصال کے خلاف بےبسی‘ چپ‘ منفی یا کم زور‘ بےجان اور بےنتیجہ ردعمل
٥۔ فلسفہءوحدت الوجود
٦۔ نٹشے کا فوق البشر
٧۔ ژاں پال سارتر کا فلسفہءتکمیل وجود
مغرب کی بڑھتی ہوئی صنعتی ترقی کے باعث‘ کم زور طبقوں کا وجود دم توڑ رہا تھا۔ ان کی فکری‘ معاشی اور سماجی حیثیت‘ زوال کا شکار تھی۔ جب تک فرد کی ذات کو استحقام میسر نہ آتا‘ استحصال کی جملہ صورتیں اور کیفیتیں ختم نہیں ہو سکتی تھیں۔
فرد میں جب تک اپنے ہونے کا احساس‘ وجود حاصل نہ کرتا اور اس ہونے کو ارتقائی راہ نہ ملتی‘ کم زور طبقے متحرک زندگی کی طرف لوٹ نہیں سکتے تھے۔ انسان غظیم تخلیق ہونے کے تصور سے‘ دور ہی رہتا۔۔ توازن کی راہ بند رہتی۔ اج ماہرین نفسیات‘ شخصیت کا جو مفہوم بیان کرتے ہیں‘ خودی کے متوازی نظر آتا ہے۔ خودی درحقیقت‘ ذات کی استعدادی صلاحیتوں کے واضح کرنے کا نام ہے۔ گویا خودی سے آگہی‘ اپنی ذات سے آگہی کا نام ہے۔ اس کی نشوونما کرنا‘ اپنی شخصیت کی نشوونما کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہاں‘ صوفیا کرام خودی کو تکبر اور تمکنت کے معنوں میں لیتے آئے ہیں۔ تکبر‘ خودی کیا‘ ذات کو اس کی حدود سے نکال باہر کرتا ہے۔ اس کی مجوذہ استعداد کار کی‘ غارت گری کا باعث بنتا ہے۔
خودی کی سادہ تعریف یہی ہو سکتی ہے‘ ایک کلو کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک کلو ہوں اور ایک کلو سے کیا کچھ‘ اور کتنا ہو سکتا ہے۔ اگر وہ خود کو کم سمجھے گا‘ تو اس کی خودی کا زوال ہوگا۔ لامحالہ اس سے اس کی استعداد کار متاثر ہو گی اور محاصل کو نقصان پہنچے گا۔ ورتھ میں کمی آ جائے گی۔ حیثیت سے کمتر ہونا یا ٹھہرنا خودی کا نقصان ہے۔ تجاویز فرعونیت کو جنم دے گا۔ شخص کی بےحرمتی اور اشیا کا غلط استعمال دیکھ کر اقبال کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو گیے۔ ذرا یہ شعر ملاحظہ ہو
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تری رضا کیا ہے
یہ شعر تجاوز کے عناصر لیے ہوئے ہے فرعونیت کے دروازے کھولتا ہے اور شرک کی راہیں ہموار کرتا ہے۔
ہمارے ہاں صوفیا کرام نے خودی کو تکبر معنوں میں لیا ہے۔ اقبال نے اس عمومی مفہوم کی نفی کرتے ہوئے اسرار خودی کے دیباچہ میں کہا ہے۔
یہ لفظ بمعنی غرور استعمال نہیں کیا گیا۔ جیسا کہ عام طور پر یہ اردو
میں مستعمل ہے۔ اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعین ذات ہے۔
یہ وحدت وجدانی یا شعور کا روشن نقطہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ پراسرار شے جو
فطرت انسانی کی شیرازہ بند ہے۔
مولوی صلاح الدین احمد
خودی کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ہمارا معیار ہماری اپنی نگاہ میں اتنا اونچا ہونا چاہیے کہ خود اپنی نظروں
سے گر جانے کا خوف ہمیں ذلیل حرکت پر آمادہ ہونے سے بروقت روک
سکے۔
سید وحیدالدین فقیر کا اس ذیل میں کہنا ہے۔
انا ایک ناقابل تغیر یا ناقابل تقسیم جوہر ہے اور یہی روح ہے۔ ہمارا شعوری
تجربہ ایک وحدت ہے
اقبال کے نزدیک خودی جامد اور ٹھہری ہوئی چیز نہیں ہے۔ یہ ارتقا پزیر ہے اور اس کی حفاظت اور استعدادی قوت لامحدود ہے۔ اس کی دسترس میں موجود اور غیر موجود اشیا اور غیر اشیا ہیں۔
سید وحیدالدین فقیر کہتے ہیں۔
شعوری تجربے کے سوا خودی تک رسائی کسی دوسرے واسطے نہیں ہو سکتی۔
انسان کائنات کا جز ہوتے ہوئے بھی‘ کائنات کی خودی کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی خودی میں
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ساری خدائی
خودی کی منازل تسخیر زمان و مکان پر ہی ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ جہد عمل اسے سوا
a fine excess
کی منزل تک لے جاتی ہے۔
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
تو شاہین ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسمان اور بھی ہیں
اسی روز وشب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
یعنی جو پیش نظر اور زیر تصرف ہے وہی سب کچھ نہیں۔ کائنات میں اور بہت کچھ ہے جسے تلاشنا اور تصرف میں لانا مقصود ہے۔ گویا شخص کو ہمہ وقت کھوج و تلاش میں رہنا ہے اور کھوج و تلاش کا سفر جب رک جائے گا خودی اس سے متاثر ہو گی۔ خودی کا متاثر ہونا زوال کی دلیل ہے۔
خودی‘ یعنی میں ہوں‘ شخصیت میں فقر کا جوہر پیدا کرتی ہے تو ہی شخص اس کی ضرب کاری ثابت ہوتی ہے۔ اس سے تسخیر وحکومت کا عنصر پیدا ہوتا ہے۔
چڑھتی ہے جب فقر کی سان پر تیغ خودی
ایک سپاہی کی ضرب کرتی ہے کارسپاہ
گویا اس سے اس کا وجود استحقام حاصل کرتا ہے۔ یہ ناصرف اس کے ہونے کی دلیل ہوگی بلکہ دوسرے اس کے وجود کو تسلیم کریں گے اور سر بہ خم کریں گے۔ شکست خوردگی‘ ان کی خودی کی کمزوری پر دلالت کرے گی۔
دست سوال دراز کرنا اقبال کے نزدیک خودی کا قتل ہے۔۔۔
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے تو تن تیرا رہا نہ من
اقبال کے نزیک ہر قوم کی خودی ہوتی ہے۔ اگر اس قوم کی خودی کو ضعف آئے گا تو وہ قوم کمزور پڑ جائے گی۔ علامہ ابن خلدون کا نظریہءعصبت اس کے قریب تر ہے۔ بعض جگہوں پر خودی اس سے عبارت نظر آتی ہے
مادہ اپنی خودی کی بنا پر فنا ہو جاتا ہے۔ جب وہ انسانی خودی کی زد میں آتا ہے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ مادہ خودی کے ابتدائی درجوں کا عکس ہے۔ جب روح اورمادہ میل یا عمل اور ردعمل ایک خاص درجے پر پہنچ جاتا ہے تو ایک بلند شعور پیدا ہو جاتا ہے۔ بلند شعور ہی وہ قوت ہے جو کائنات میں توازن پیدا کرتا ہے۔ اسی کے دم سے تصرف کے در وا ہوتے ہیں۔
اقبال کا تصور کلچر ایک شخض کی خودی سے پوری قوم پورے خطہ کی مجلسی اور اجتماعی خودی سے منسلک ہے۔ اسی طرح اقبال‘ جملہ فنون لطیفہ میں بھی خودی کی کارفرمائی ضروری خیال کرتا ہے۔ فنون لطیفہ میں خودی جتنے عروج پر ہو گی کلچر بھی اتنے عروج پر ہو گا۔ آرٹ کی جن شکلوں میں ضعف کا شکار ہوگی زندگی کی قوت عمل بھی اسی تناسب سے ریورس کے عمل میں داخل ہوگی۔
اقبال علم و فن کا مقصد آگہی قرار نہیں دیتا بلکہ یہ انہیں حفظ خودی کے لیے من جملہ اسباب اور آلات کے سبب اور ایک آلہ سمجھتا ہے۔
اقبال نے فرد‘ کائنات‘ حیات‘ سماج‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ غرض ہر چیز کو خودی کے پیمانے پر رکھا ہے۔ فرد کی ضعیف خودی پورے معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اسی طرح فرد کے خصوصی اور عمومی روے افراد کی خودی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر اکثریت معیاری افراد کی ہو گی تو ناصرف سماج باقی رہے گا بلکہ غیرمعیاری افراد بھی اس میں جذب ہو کر وجود برقرار رکھیں گے تاہم ان کی انفرادی خودی باقی نہ رہے گی۔ اقبال کی زبان میں ملاحظہ ہو
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
خودی درحقیقت زمان و مکان میں تبدیلی لاتی ہے۔
خودی کے حوالہ سے
ہونا استحقام حاصل کرتا ہے
پہلے سے موجود میں تغیر لاتی ہے۔
تسخیر و تصرف کے دروازے کھولتی ہے۔
ترمیم وتنسیخ کا عمل جاری رہتا ہے۔
موجود کی استعدادی قوت بڑھتی ہے۔
لاموجود پر دسترس حاصل ہو کر اسے تجسیم میسر آتی ہے۔
اقبال کا کہنا ہے
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اقبال کا فلسفہءخودی‘ درحقیت شخص کی پوزیش مضبوط کرتا ہے۔ اسے ناصرف میں ہوں‘ کا احساس دلاتا ہے بلکہ اس کو مضبوطی سے سرفراز کرکے جھپٹنے اور پلٹنے کے گر سیکھاتا ہے۔
١١- اکتوبر ١٩٨٨٠