صبح ہی سے
وہ آگ
عزازءیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی
اس آگ کا ایندھن
قارون نے پھر خرید کیا
اس آگ کو فرعون پی گیا
اس آگ کو حر نے اگل دیا
یزید مگر نگل گیا
اس آگ کو
میر جعفر نے سجدہ کیا
میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی
اس آگ کے شعلے
پھر بلند ہیں
مخلوق ارضی
ڈر سے سہم گئ ہے
ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے
کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں
صبح ہی سے تو
آسمان نکھر گیا ہے
1980