کرب کے شہر سے نکلے تو یہ منظر دیکھا
ہم کو لوگوں نے بلایا، ہمیں چھو کر دیکھا
کوئی سایہ بھی نہ سہمے ہوئے گھر سے نکلا
ہم نے ٹوٹی ہوئی دہلیز کو اکثر دیکھا
سوچ کا پیڑ جواں ہو کے بنا ایسا رفیق
ذہن کے قد نے اسے اپنے برابر دیکھا
جب بھی چاہا ہے کہ ملبوس وفا کو چھو لیں
مثل خوشبو کوئی اڑتا ہوا پیکر دیکھا
زندگی اتنی پریشاں ہے یہ سوچا بھی نہ تھا
اس کے اطراف میں شعلوں کا سمندر دیکھا
رات بھر خوف سے چٹخے تھے سھر کی خاطر
صبحدم خود کو بکھرتے ہوئے در پر دیکھا
وہ جو اڑتی ہے سدا دشت وفا میں
اُسی مٹی میں نہاں درد کا گوہر دیکھا
پروفیسر بےتاب تابانی
Comment