آج الجھتا مستقبل اور گزرے کل کی تمنا ھو جیسے۔
محفل میں کسی اجنبی کا آنا سخت منع هو جیسے۔
پاکیز ہ جذبوں کو نفرت کے الاؤ میں جلایا لوگوں نے
تیرے شہر میں چاند کی چاھت کوئ گناہ هو جیسے۔
میرے لب و لہجے سے جلنے کی بو آتی ھے۔
دل دیر تلک نفرت کی سیخ پہ بُھنا ھو جیسے۔
یاد ھے سب سود و زیاں، کدھر گئ نقد جاں
فراق کے ہر لمحے کو کئ ھزار گِنا ھو جیسے۔
بچھڑ جانے کا فیصلہ، گو تھا تم اکیلے کا
خوش کاٹ رہا ہوں راستہ میں نے چُنا ھو جیسے۔
رواجوں کا موتیا آنکھیں نگل گیا بینائ کیسی
سماج کو کسی نے اندھے غاروں میں جنا ھو جیسے۔
خوشبو تیری لمس تیرا کچھ تعلق قفس سے ھے
سنہری زلف کے تاروں سے یہ جال بنا ھو جیسے۔
Comment