اپنی تنہائی مرے نام پہ آباد کرے
کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں...
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف
قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے
رابعہ اقبال رابی
کون ہو گا جو مجھے اس کی طرح یاد کرے
دل عجب شہر کہ جس پر بھی کھلا در اس کا
وہ مسافر اسے ہر سمت سے برباد کرے
اپنے قاتل کی ذہانت سے پریشان ہوں میں...
روز اِک موت نئے طرز کی ایجاد کرے
اتنا حیراں ہو مری بے طلبی کے آگے
واقفس میں کوئی در خود میرا صیاد کرے
وہی معصوم ہے ہر بات پہ جو صاد کرے
جب لہو بول پڑے اس کی گواہی کے خلاف
قاضی شہر کچھ اس بات میں ارشاد کرے
رابعہ اقبال رابی
Comment