رفیع الدین ہاشمی-اقبال کا تصورِ فقر
فقر کے ظاہری اورلغوی معنی توافلاس،محتاجی ،تنگ دستی اورغربت کے ہیں مگرعلامہ اقبال اس کے ظاہری معنوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں ،یعنی: اِستغنا یا اسبابِ ظاہری سے بے نیازی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کا تعلق ہے،اِستغنا کا رویہ ہی امت اور افرادِ امت کو کامیابی اور سربلندی کی معراج تک پہنچا سکتا ہے ۔حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ع
کہ پایا میں نے اِستغنا میں معراج مسلمانی
(بال جبریل،ص۱۲۰؍۴۱۲)
فقر کا یہ مفہوم علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کی حیات طیبہ سے اخذ کیا ہے۔
نبی کریمؐ کی پوری زندگی فقیرانہ اسلوب کا نمونہ اورفقر کی عملی تفسیر ہے ۔متعدد روایات میں بتایا گیا ہے کہ اِدھر اُدھر سے جو تحائف ،ہدایا ، مال ومنال اور زروجواہر آتا ،آپؐ اسے فی الفور تقسیم کر دیتے ۔اپنے لیے یاگھر والوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔ قریشِ مکہ نے پیش کش کی کہ ہم زروجواہرلا کر آپ کے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں ہمارے بتوں سے تعرض نہ کیجیے۔ آپؐ نے اس پیش کش کو پر کاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی۔ دراصل اقبال کے تصورِ فقر کا مفہوم اسوۂ رسولؐ سے ہٹ کرسمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ کے نزدیک فقر ایسی ’متاعِ مصطفی ؐ ‘ ہے جو اُمت مسلمہ کو وراثت میں عطا ہوئی ہے اور آپ نے اُمت کو اس کاامانت دار اور نگران (care-taker) بنایا ہے۔ فرمایا
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ، ایں متاعِ مصطفیؐ ست
(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)
چوں کہ رسولؐ اللہ کو حجاز سے نسبت تھی ،اس لیے علامہ متاع فقرکو’’حجازی فقر‘‘کہتے ہیں :
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
(ضربِ کلیم،ص۸۸؍۵۵۰)
یہاں بھی اشارہ رسولؐ اللہ کی طرف ہے جن کا طریق فقر آج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔علامہ اقبال اس فقر کی خصوصیات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی
یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مرد غازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
(ضربِ کلیم،ص۸۹؍۵۵۱)
علامہ اقبال نے ’فقرغیور‘کی ترکیب’غیر اسلامی فقر کے متضاد کے طور پر استعمال کی ہے۔ فقرغیور اور غیر اسلامی فقر دو ایسے مختلف اور متضاد رویے ہیں جو متوازی خطوط کی طرح کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ بال جبریل کی نظم ’فقر‘میں دونوں اصنافِb فقر کا باہمی موازنہ کیا گیا ہے۔ایک فقر، کم ہمتی ،بزدلی اور پسپائی سکھاتا ہے۔ دوسری نوعیت کا فقر امامت وامارت کا راستہ دکھا کر فقیر کا رشتہ حضرت شبیرؓ سے جوڑتا ہے:
اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری
اِک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری
اِک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری
(بال جبریل،ص۱۶۰؍۴۵۲)
سید نذیر نیازی کے نام۲۱؍اکتوبر۱۹۲۵ء کو لکھتے ہیں:’’اسلام کی حقیقت فقرِغیور ہے اور بس‘‘ (مکتوباتِ اقبال،ص۳۰۳)ایک جگہ علامہ نے فقر غیور کو عین اسلام قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام اورفقرِغیور پورے دین پر محیط ہے:
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
(ضربِ کلیم،ص۳۱؍۴۹۳)
علامہ اقبال نے فارسی اور اردو شاعری میں قلندر،مردقلندر،درویش ،بندۂ درویش اورمردِ کامل جیسے الفاظ وتراکیب کوفقرغیور کے معنوں میں اورفقیر کے متبادل اور مترادف کے طور پراستعمال کیا ہے۔ایک جگہ کہتے ہیں:
قلندر جز دو حرفِ لَا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا
(بال جبریل ،ص۴۴؍۳۶۸)
گو یا تو حید، مردِ قلندر کا سرمایۂ حیات ہے اور یہی فقرکی کلید ہے ۔جب وہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہوئے غیراللہ کی نفی کرتا ہے تو اس میں’اللہ کی شانِ بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت علی ہجویری نے اس کی تائید اس طرح فرمائی ہے کہ :ذات خداوندی کے ماسوا تمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے(کشف المحجوب،ص ۸۵)۔ حضرت نے ایک بزرگ ابوسعیدؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اصل فقیر وہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔(ایضاً،ص۸۷) یعنی اللہ اسے کافی ہو اور وہ خود کو اللہ کے سوا کسی کا’’بندہ'' نہ سمجھے، نہ وہ کسی سے ڈرے، نہ کسی سے دبے اور ’پیش فرعونے سرش افگندہ نیست‘ کے مصداق ،نہ وہ کسی کے سامنے سر جھکائے ۔
ڈاکٹرسید عبداللہ لکھتے ہیں:[فقر] ایک روحانی کیفیت،ایک رویہ ہے جس کی رُو سے برتر مقاصد زندگی کو مادی لذائذ اور قریبی ترغیبات پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ فقر فرد کے اندر ایک خاص قسم کا وقار،ایک خاص قسم کا میلانِ بے نیازی پیدا کرتا ہے‘‘۔(مسائل اقبال، ص۲۵۰) چنانچہ وہ مال ودولت، مادی طرزِ فکر، حُبِّ دنیا، ہوسِ جاہ ومنصب اور آل اولاد کی محبت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اسے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ اورسارا کرّ وفر بے حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف ذاتِ واحد پر ایمان رکھتا اور اسی پر بھروسا کرتا ہے ،اس لیے علامہ اقبال کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ سکندرودارا جیسے معروف حکمرانوں اور شاہوں سے بھی بلندوبرتر اور اُونچا ہوتا ہے،بشرطیکہ اس کی فقیری میں اسوۂ رسولؐ اللہ اور اسوۂ صحابہؓ کے آثار پائے جاتے ہوں۔ فرماتے ہیں:
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
(بال جبریل،ص۵۷؍۳۴۹)
نہ تخت و تاج ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
(ایضاً،ص۶۸؍۳۶۰)
فقر کے ہیں معجزات ، تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
(ایضاً،ص۷۷؍۳۶۹)
ع مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
(ایضاً،ص۳۵؍۳۲۷)
حضرت علی ہجویریؒ کے نزدیک فقرکی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں ،بلکہ دل کو دنیا کی محبت سے خالی اور اس سے بے نیاز کرنا ہے۔ (کشف المحجوب،ص ۸۴)
علامہ اقبال کے تصورِ فقر کو ترک دنیا ،سکوں پرستی، خانقاہیت یا گوشہ گیری سے کوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ رویہ’’کش مکشِ زندگی میں گریز‘‘ کی طرف لے جاتا ہے اور زندگی کا ارتقا، کش مکش اور حرکت وجدو جہدہی سے ممکن ہے۔ راہب جس سکوں پرستی کا قائل ہے ،وہ تحرک اور فعالیت کی ضد ہے۔ ضربِ کلیمکی نظر’فقر و راہبی‘ میں علامہ نے کہا ہے:
کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی
سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
(ضربِ کلیم،ص۵۰؍۵۱۲)
اقبال گوشہ گیری کے اسی حد تک قائل ہیں، جس حد تک اسوۂ رسولؐ اجازت دیتا ہے، مثلاً رمضان المبارک میں چندروز کے لیے اعتکاف کی صورت میں خلوت نشینی کی اجازت ہے اوریہ خلوت نشینی بھی ذکر الٰہی، فکرِ آخرت، ضبطِ نفس، خود احتسابی اور ان سب کے نتیجے میں استحکام خودی کے لیے ہے۔ اتباع سنتِ نبویؐمیں اعتکاف کرنا، نہ صرف کارِ ثواب ہے بلکہ یہ معتکف کو اصلاحِ باطن اور صفاے قلب کے لیے ایک سازگار ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔
علامہ اقبال جن اخلاق واوصاف کو فقر کا لازمہ سمجھتے ہیں ،ان میں صبروشکر، تسلیم ورضا اور حلم وانکسار بھی شامل ہیں مگر اس تسلیم ورضا کے معانی، بے کسی ،ناتوانی یا ضعف کے نہیں ہیں۔ فقر تحرک و جرأت کا نمونہ ہوتا ہے بلکہ قوت کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر فقر ودرویشی کے ساتھ بے چارگی اور بے بسی کے تصورات وابستہ ہیں۔ا قبال کے تصورِفقر میں اس کی گنجایش نہیں۔ اقبال کا فقیر جرأتِ رندانہ کا مالک ہے ۔ چوں کہ وہ غیر اللہ سے مستغنی ہے،اس لیے اس بے باک انسان کو کسی کا خوف ہے نہ کسی کی پروا۔علامہ کہتے ہیں:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
(بال جبریل،ص۳۴؍۳۲۶)
وہ قرآن حکیم کے اس فرمان پرکار بند ہوتا ہے: اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ فقراورجرأت وبے خوفی کے باہمی تعلق کو علامہ بعض مخصوص تراکیب سے واضح کرتے ہیں، مثلاً: فقرحیدری، بوے اسداللّٰہی،سرمایۂ شبیری، متاعِ تیموری وغیرہ۔تاریخ وروایات میں حیدر،شبیراور تیمورغیر معمولی جرأت اورعزم وہمت کی علامتیں ہیں۔اس حوالے سے اقبال سمجھتے تھے کہ مرد فقیر مزاحم قوتوں کا مقابلہ نہایت ثبات واستقلال کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ کش مکش، پیکار اور ٹکراؤ میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔ ضربِ کلیمکی نظم ’فقروملوکیت‘ فقر کی قوت وشوکت اور اس کے جلالی مزاج کا اظہار ہے۔
فرماتے ہیں:
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصّۂ فرعون و کلیم
(ضربِ کلیم،ص۳۰؍۴۹۲)
بے باکی وبے تابی اوراظہار جرأت وقوت فقر کی پہچان ہے ۔یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور اسی حوالے سے وہ حق کا پاسبان اور محافظ ہے: ع
زندہ حق از قوتِ شبیری است
(اسرارورموز،ص۱۱۰)
کسی معرکے میں اگر اسے وقتی طور پر پسپا بھی ہونا پڑے ،تب بھی وہ ذہنی طور پر شکست قبول نہیں کرتا۔ اس طرح فقر کا اقبال کے فلسفۂ جہدو عمل سے ایک قریبی تعلق قائم ہوتا ہے۔
مردِ فقیر فلاح انسانیت کا علمبردار ہے۔ وہ فطرت پر بھی غالب آسکتا ہے اورتسخیر جہات بھی اس کے لیے ناممکن نہیں:
فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند
بر نوامیسِ جہاں شبخوں زند
(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)
فقرِ مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات
(ایضاً،ص۲۲؍۸۱۸)
اقبال کے تصورفقر کا قوموں کے عروج وزوال سے بھی گہرا تعلق ہے ۔کسی معاشرے کی اجتماعی سربلندی میں صاحب فقر اپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ دنیا کی قیادت اور امامت فقیر کی وراثت ہے اور اس کا استحقاق بھی ہے۔ دنیا میں سربلندی صرف اسی قوم کا مقدر ہے جس کے افراد فقرکی صفت کو اپنائیں۔امت مسلمہ نے جب سے فقر کی غلط تعبیر اپنائی،اور حقیقی اسلامی فقر کو ترک کر دیا تو زوال واِدبار اور پستی ونکبت کا شکار ہو گئی۔ علامہ فرماتے ہیں:
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی
(ضربِ کلیم،ص۵۱؍۵۱۳)
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ
(بال جبریل،ص۲۳؍۳۱۵)
اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
(ایضاً،ص۲۶؍۳۱۸)
علامہ اقبال نے اُردو شاعری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاہین کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔ اقبال کا شاہین کار زارِحیات میں چند مخصوص امتیازات رکھتا ہے۔ فقر بھی انھی امتیازات سے متصف ہے۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ:’’اس جانور میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: (۱)خوددار اورغیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳)بلند پرواز ہے۔(۴)خلوت پسند ہے۔ (۵)تیز نگاہ ہے‘‘۔(اقبال نامہ،ص۱۹۴)
گویا شاہین میں بیش تر وہ امتیازات موجود ہیں جوفقیر کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ بعض مقامات پر اقبال کے ہاںیوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے فقر کی تجسیم آں حضوؐر کی ذات مبارک میں کی ہے۔اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت شبیرؓ اورحضرت خالدؓ بن ولید کو بھی ایسے مردانِ قلندرمیں شمار کرتے ہیں جن کا وجود کسی معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت ہوتا ہے:
آتشِ ما سوز ناک از خاکِ او
شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ او
بر نیفتد ملتے اندر نبرد
تا درو باقیست یک درویشِ مرد
(پس چہ باید کرد،ص۲۱؍۸۱۷)
اقبال کے تصور فقر کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کئی جگہ خود کو ایک ’قلندر‘اور’مردفقیر‘قرار دیتے ہیں۔ فقر کو وہ اپنے لیے باعثِ عزت وفخر سمجھتے ہیں۔وہ فقرکو شاعری سے بھی برترقرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولتِ فقر کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہیچ ہے۔ فرماتے ہیں:
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟
(بال جبریل،ص۴۸؍۳۴۰)
مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
(ایضاً،ص۱۴۷؍۴۳۹)
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی
(ایضاً،ص۱۴۶؍۴۳۸)
علامہ کا دعوے فقر وقلندری نری لفّاظی نہیں،انھوں نے اپنے نجی زندگی میں بھی فقروقلندری کو برتا ہے۔مزا جاًوہ درویش تھے۔ مولانا غلام رسول مہرطویل عرصے تک حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر رہے۔سفروحضرمیں بھی ساتھ رہا۔ وہ لکھتے ہیں:’’ان کی فطرت وطبیعت درویشانہ تھی۔ یہ ان کے کلام میں بار بار نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو’فقیر ‘اور’دریش ‘ اور’قلندر‘کہہ کر پکارتے تھے تو یہ کوئی شاعر انہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کا اظہار تھا‘‘۔(حیات اقبال کے چند مخفی گوشے، ص ۵۵۵) مہرصاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’فقیری ، قلندری، توکل اور خدا کے سوا ہر شے سے بے نیازی اقبال کے وہ اوصاف ہیں جو آخری دور کی طرح پہلے دور میں بھی ممتاز تھے‘‘۔(اقبالیات مہر،ص۲۲۲)
حیات اقبال کے بعض واقعات،ان کے درویشانہ اِستغنا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً: بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کا پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ اس کے محرک سر راس مسعود تھے۔ سر راس نے یہ کوشش بھی کہ بہاول پور اور حیدرآباد کی ریاستوں اورسر آغا خاں کی طر ف سے بھی اسی طرح کے وظائف مقرر ہو جائیں۔ان کی درخواست پر آغا خان نے پانچ سو روپے ماہوار کی اعانت منظور کر لی مگر خوداقبال نے ان تجاویز کو پسند نہیں کیا۔ ۱۱؍دسمبر۱۹۳۵ء کو راس مسعود کے نام ایک خط میں لکھا:’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضر ت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے ،وہ کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔(اقبال نامے،ص۱۹۵)
اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد،علامہ ک وسیالکوٹ والے مکان کا ایک حصہ دینا چاہتے تھے۔ یہ علامہ کا اِستغنا تھا کہ وہ مکان لینے کے لیے تیار نہ ہوئے بلکہ ستمبر۱۹۳۰ء میں انھوں نے جایداد میں اپنے حقوق سے دست برداری کی قانونی دستاویز بھی لکھ دی۔(مظلوم اقبال، ص۷۵، ۷۹، ۸۰)
اسی طرح آخری زمانے میں انھوں نے حیدرآباد دکن سے سر اکبر حیدری کا بھیجا ہوا ایک ہزار روپے کا چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (ارمغانِ حجازاردو،ص۴۸؍۶۹۰)علامہ کا یہ مصرع خود انھی پر صادق آتا ہے: ع
فقیرِ راہ نشین و دل غنی دارد
(پیام مشرق،ص۶۳؍۳۳۳)
اقبال کا تصورِفقراُردو شاعری میں ایک نیا اور منفرد تصور ہے۔ کش مکشِ حیات سے فرار، رہبانیت یا ترکِ دنیا سے اس کا علاقہ نہیں بلکہ انسانی ارتقا کے لیے فقر کا متحرک اور برسرِ عمل رہنا ضروری ہے۔ وہ حق وباطل کی آمیزش میں حصہ لیتا ہے اور مثبت اور اخلاقی قدروں کے ذریعے معاشرے کو صحت مند اور پاکیزہ بنانے میں معاونت کرتا ہے۔ وہ مادیت میں ملوث نہیں ہوتا کیوں کہِ استغنا اس کی بنیادی سرشت ہے جو انسان کے اندر نیک طینتی کو فروغ دیتی ہے۔
علامہ اقبال نے فقر کے مفہوم کو وسعت دی ہے اور واضح کیا ہے کہ نہ صرف فرد کے روحانی ارتقا بلکہ معاشرے کی صحت مند اور قومی وملّی سربلندی کے لیے بھی فقر کا رویہ اورقلندرانہ طرزِ عمل اپنانا ضروری ہے۔
کتابیات
۱۔ اعجازاحمد:مظلوم اقبال۔اعجازاحمد۔کراچی،۱۹۸۵ء
۲۔ اقبال،علامہ محمد:اقبال نامہ(مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء
۳۔ اقبال،علامہ محمد:اقبال نامے(مرتبہ:ڈاکٹراخلاق اثرؔ )۔مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال،۶ ۲۰۰ء
۴۔ اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال اردو۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء
۵۔ اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال فارسی۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء
۶۔ اقبال،علامہ محمد:مکتوبات اقبال(مرتبہ:سیدنذیرنیازی)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور،۱۹۷۷ء
۷۔ حمزہ فاروقی،محمد:حیات اقبال کے چندمخفی گوشے۔ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۸۸ء
۸۔ سیدعبداللہ،ڈاکٹر:مسائل اقبال۔مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور،۱۹۷۴ء
۹۔ علی ہجویری،شیخ:کشف المحجوب(مترجم:میاں طفیل محمد)۔اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۰ء
۱۰۔ مہر،غلام رسول:اقبالیات مہر(مرتبہ:امجدسلیم علوی)۔مہرسنز لاہور،۱۹۸۸ء
فقر کے ظاہری اورلغوی معنی توافلاس،محتاجی ،تنگ دستی اورغربت کے ہیں مگرعلامہ اقبال اس کے ظاہری معنوں سے قطع نظر کرتے ہوئے اس کے اصطلاحی معنی مراد لیتے ہیں ،یعنی: اِستغنا یا اسبابِ ظاہری سے بے نیازی۔ جہاں تک امتِ مسلمہ کا تعلق ہے،اِستغنا کا رویہ ہی امت اور افرادِ امت کو کامیابی اور سربلندی کی معراج تک پہنچا سکتا ہے ۔حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ ع
کہ پایا میں نے اِستغنا میں معراج مسلمانی
(بال جبریل،ص۱۲۰؍۴۱۲)
فقر کا یہ مفہوم علامہ اقبال نے نبی کریمؐ کی حیات طیبہ سے اخذ کیا ہے۔
نبی کریمؐ کی پوری زندگی فقیرانہ اسلوب کا نمونہ اورفقر کی عملی تفسیر ہے ۔متعدد روایات میں بتایا گیا ہے کہ اِدھر اُدھر سے جو تحائف ،ہدایا ، مال ومنال اور زروجواہر آتا ،آپؐ اسے فی الفور تقسیم کر دیتے ۔اپنے لیے یاگھر والوں کے لیے کچھ بھی نہ رکھتے تھے۔ قریشِ مکہ نے پیش کش کی کہ ہم زروجواہرلا کر آپ کے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں ہمارے بتوں سے تعرض نہ کیجیے۔ آپؐ نے اس پیش کش کو پر کاہ کے برابربھی اہمیت نہ دی۔ دراصل اقبال کے تصورِ فقر کا مفہوم اسوۂ رسولؐ سے ہٹ کرسمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ کے نزدیک فقر ایسی ’متاعِ مصطفی ؐ ‘ ہے جو اُمت مسلمہ کو وراثت میں عطا ہوئی ہے اور آپ نے اُمت کو اس کاامانت دار اور نگران (care-taker) بنایا ہے۔ فرمایا
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضا ست
ما امینیم ، ایں متاعِ مصطفیؐ ست
(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)
چوں کہ رسولؐ اللہ کو حجاز سے نسبت تھی ،اس لیے علامہ متاع فقرکو’’حجازی فقر‘‘کہتے ہیں :
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ فقر
جس فقر کی اصل ہے حجازی
(ضربِ کلیم،ص۸۸؍۵۵۰)
یہاں بھی اشارہ رسولؐ اللہ کی طرف ہے جن کا طریق فقر آج بھی ہر مسلمان کے لیے ایک مثال اور نمونہ ہے۔علامہ اقبال اس فقر کی خصوصیات کا ذکر اس طرح کرتے ہیں:
اس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شانِ بے نیازی
یہ فقرِ غیور جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مرد غازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
(ضربِ کلیم،ص۸۹؍۵۵۱)
علامہ اقبال نے ’فقرغیور‘کی ترکیب’غیر اسلامی فقر کے متضاد کے طور پر استعمال کی ہے۔ فقرغیور اور غیر اسلامی فقر دو ایسے مختلف اور متضاد رویے ہیں جو متوازی خطوط کی طرح کبھی آپس میں نہیں ملتے۔ بال جبریل کی نظم ’فقر‘میں دونوں اصنافِb فقر کا باہمی موازنہ کیا گیا ہے۔ایک فقر، کم ہمتی ،بزدلی اور پسپائی سکھاتا ہے۔ دوسری نوعیت کا فقر امامت وامارت کا راستہ دکھا کر فقیر کا رشتہ حضرت شبیرؓ سے جوڑتا ہے:
اِک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری
اِک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اِک فقر سے قوموں میں مسکینی و دل گیری
اِک فقر سے مٹی میں خاصیتِ اکسیری
اِک فقر ہے شبیری ، اس فقر میں ہے میری
میراثِ مسلمانی ، سرمایۂ شبیری
(بال جبریل،ص۱۶۰؍۴۵۲)
سید نذیر نیازی کے نام۲۱؍اکتوبر۱۹۲۵ء کو لکھتے ہیں:’’اسلام کی حقیقت فقرِغیور ہے اور بس‘‘ (مکتوباتِ اقبال،ص۳۰۳)ایک جگہ علامہ نے فقر غیور کو عین اسلام قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک اسلام اورفقرِغیور پورے دین پر محیط ہے:
لفظ اسلام سے یورپ کو اگر کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقرِ غیور
(ضربِ کلیم،ص۳۱؍۴۹۳)
علامہ اقبال نے فارسی اور اردو شاعری میں قلندر،مردقلندر،درویش ،بندۂ درویش اورمردِ کامل جیسے الفاظ وتراکیب کوفقرغیور کے معنوں میں اورفقیر کے متبادل اور مترادف کے طور پراستعمال کیا ہے۔ایک جگہ کہتے ہیں:
قلندر جز دو حرفِ لَا اِلٰہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہِ شہر قاروں ہے لغت ہاے حجازی کا
(بال جبریل ،ص۴۴؍۳۶۸)
گو یا تو حید، مردِ قلندر کا سرمایۂ حیات ہے اور یہی فقرکی کلید ہے ۔جب وہ لا الٰہ اِلاَّ اللّٰہ کہتے ہوئے غیراللہ کی نفی کرتا ہے تو اس میں’اللہ کی شانِ بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت علی ہجویری نے اس کی تائید اس طرح فرمائی ہے کہ :ذات خداوندی کے ماسوا تمام چیزوں سے دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے(کشف المحجوب،ص ۸۵)۔ حضرت نے ایک بزرگ ابوسعیدؒ کا قول نقل کیا ہے کہ اصل فقیر وہ ہے جو اللہ کے ساتھ غنی ہو۔(ایضاً،ص۸۷) یعنی اللہ اسے کافی ہو اور وہ خود کو اللہ کے سوا کسی کا’’بندہ'' نہ سمجھے، نہ وہ کسی سے ڈرے، نہ کسی سے دبے اور ’پیش فرعونے سرش افگندہ نیست‘ کے مصداق ،نہ وہ کسی کے سامنے سر جھکائے ۔
ڈاکٹرسید عبداللہ لکھتے ہیں:[فقر] ایک روحانی کیفیت،ایک رویہ ہے جس کی رُو سے برتر مقاصد زندگی کو مادی لذائذ اور قریبی ترغیبات پر ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ فقر فرد کے اندر ایک خاص قسم کا وقار،ایک خاص قسم کا میلانِ بے نیازی پیدا کرتا ہے‘‘۔(مسائل اقبال، ص۲۵۰) چنانچہ وہ مال ودولت، مادی طرزِ فکر، حُبِّ دنیا، ہوسِ جاہ ومنصب اور آل اولاد کی محبت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اسے دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ اورسارا کرّ وفر بے حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ وہ صرف ذاتِ واحد پر ایمان رکھتا اور اسی پر بھروسا کرتا ہے ،اس لیے علامہ اقبال کے نزدیک اس کا مقام ومرتبہ سکندرودارا جیسے معروف حکمرانوں اور شاہوں سے بھی بلندوبرتر اور اُونچا ہوتا ہے،بشرطیکہ اس کی فقیری میں اسوۂ رسولؐ اللہ اور اسوۂ صحابہؓ کے آثار پائے جاتے ہوں۔ فرماتے ہیں:
دارا و سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اللّٰہی
(بال جبریل،ص۵۷؍۳۴۹)
نہ تخت و تاج ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے
(ایضاً،ص۶۸؍۳۶۰)
فقر کے ہیں معجزات ، تاج و سریر و سپاہ
فقر ہے میروں کا میر ، فقر ہے شاہوں کا شاہ
(ایضاً،ص۷۷؍۳۶۹)
ع مومن ہے تو کرتا ہے فقیری میں بھی شاہی
(ایضاً،ص۳۵؍۳۲۷)
حضرت علی ہجویریؒ کے نزدیک فقرکی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں ،بلکہ دل کو دنیا کی محبت سے خالی اور اس سے بے نیاز کرنا ہے۔ (کشف المحجوب،ص ۸۴)
علامہ اقبال کے تصورِ فقر کو ترک دنیا ،سکوں پرستی، خانقاہیت یا گوشہ گیری سے کوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ رویہ’’کش مکشِ زندگی میں گریز‘‘ کی طرف لے جاتا ہے اور زندگی کا ارتقا، کش مکش اور حرکت وجدو جہدہی سے ممکن ہے۔ راہب جس سکوں پرستی کا قائل ہے ،وہ تحرک اور فعالیت کی ضد ہے۔ ضربِ کلیمکی نظر’فقر و راہبی‘ میں علامہ نے کہا ہے:
کچھ اور چیز ہے شاید تیری مسلمانی
تری نگاہ میں ہے ایک فقر و رہبانی
سکوں پرستیِ راہب سے فقر ہے بیزار
فقیر کا ہے سفینہ ہمیشہ طوفانی
(ضربِ کلیم،ص۵۰؍۵۱۲)
اقبال گوشہ گیری کے اسی حد تک قائل ہیں، جس حد تک اسوۂ رسولؐ اجازت دیتا ہے، مثلاً رمضان المبارک میں چندروز کے لیے اعتکاف کی صورت میں خلوت نشینی کی اجازت ہے اوریہ خلوت نشینی بھی ذکر الٰہی، فکرِ آخرت، ضبطِ نفس، خود احتسابی اور ان سب کے نتیجے میں استحکام خودی کے لیے ہے۔ اتباع سنتِ نبویؐمیں اعتکاف کرنا، نہ صرف کارِ ثواب ہے بلکہ یہ معتکف کو اصلاحِ باطن اور صفاے قلب کے لیے ایک سازگار ماحول بھی فراہم کرتا ہے۔
علامہ اقبال جن اخلاق واوصاف کو فقر کا لازمہ سمجھتے ہیں ،ان میں صبروشکر، تسلیم ورضا اور حلم وانکسار بھی شامل ہیں مگر اس تسلیم ورضا کے معانی، بے کسی ،ناتوانی یا ضعف کے نہیں ہیں۔ فقر تحرک و جرأت کا نمونہ ہوتا ہے بلکہ قوت کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں روایتی طور پر فقر ودرویشی کے ساتھ بے چارگی اور بے بسی کے تصورات وابستہ ہیں۔ا قبال کے تصورِفقر میں اس کی گنجایش نہیں۔ اقبال کا فقیر جرأتِ رندانہ کا مالک ہے ۔ چوں کہ وہ غیر اللہ سے مستغنی ہے،اس لیے اس بے باک انسان کو کسی کا خوف ہے نہ کسی کی پروا۔علامہ کہتے ہیں:
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
(بال جبریل،ص۳۴؍۳۲۶)
وہ قرآن حکیم کے اس فرمان پرکار بند ہوتا ہے: اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَاءَ اللّٰہِ لاَخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُوْنَ فقراورجرأت وبے خوفی کے باہمی تعلق کو علامہ بعض مخصوص تراکیب سے واضح کرتے ہیں، مثلاً: فقرحیدری، بوے اسداللّٰہی،سرمایۂ شبیری، متاعِ تیموری وغیرہ۔تاریخ وروایات میں حیدر،شبیراور تیمورغیر معمولی جرأت اورعزم وہمت کی علامتیں ہیں۔اس حوالے سے اقبال سمجھتے تھے کہ مرد فقیر مزاحم قوتوں کا مقابلہ نہایت ثبات واستقلال کے ساتھ کرتا ہے۔ وہ کش مکش، پیکار اور ٹکراؤ میں ایک لطف محسوس کرتا ہے۔ ضربِ کلیمکی نظم ’فقروملوکیت‘ فقر کی قوت وشوکت اور اس کے جلالی مزاج کا اظہار ہے۔
فرماتے ہیں:
فقر جنگاہ میں بے ساز و یراق آتا ہے
ضرب کاری ہے اگر سینے میں ہے قلب سلیم
اس کی بڑھتی ہوئی بے باکی و بے تابی سے
تازہ ہر عہد میں ہے قصّۂ فرعون و کلیم
(ضربِ کلیم،ص۳۰؍۴۹۲)
بے باکی وبے تابی اوراظہار جرأت وقوت فقر کی پہچان ہے ۔یہی اس کی زندگی کی علامت ہے اور اسی حوالے سے وہ حق کا پاسبان اور محافظ ہے: ع
زندہ حق از قوتِ شبیری است
(اسرارورموز،ص۱۱۰)
کسی معرکے میں اگر اسے وقتی طور پر پسپا بھی ہونا پڑے ،تب بھی وہ ذہنی طور پر شکست قبول نہیں کرتا۔ اس طرح فقر کا اقبال کے فلسفۂ جہدو عمل سے ایک قریبی تعلق قائم ہوتا ہے۔
مردِ فقیر فلاح انسانیت کا علمبردار ہے۔ وہ فطرت پر بھی غالب آسکتا ہے اورتسخیر جہات بھی اس کے لیے ناممکن نہیں:
فقر بر کرّوبیاں شبخوں زند
بر نوامیسِ جہاں شبخوں زند
(پس چہ بایدکرد،ص۲۰؍۸۱۶)
فقرِ مومن چیست ؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات
(ایضاً،ص۲۲؍۸۱۸)
اقبال کے تصورفقر کا قوموں کے عروج وزوال سے بھی گہرا تعلق ہے ۔کسی معاشرے کی اجتماعی سربلندی میں صاحب فقر اپنی متحرک شخصیت کی وجہ سے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ دنیا کی قیادت اور امامت فقیر کی وراثت ہے اور اس کا استحقاق بھی ہے۔ دنیا میں سربلندی صرف اسی قوم کا مقدر ہے جس کے افراد فقرکی صفت کو اپنائیں۔امت مسلمہ نے جب سے فقر کی غلط تعبیر اپنائی،اور حقیقی اسلامی فقر کو ترک کر دیا تو زوال واِدبار اور پستی ونکبت کا شکار ہو گئی۔ علامہ فرماتے ہیں:
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولتِ سلمانی و سلیمانی
(ضربِ کلیم،ص۵۱؍۵۱۳)
نہ ایراں میں رہے باقی، نہ توراں میں رہے باقی
وہ بندے فقر تھا جن کا ہلاکِ قیصر و کسریٰ
(بال جبریل،ص۲۳؍۳۱۵)
اب حجرۂ صوفی میں وہ فقر نہیں باقی
خونِ دلِ شیراں ہو جس فقر کی دستاویز
(ایضاً،ص۲۶؍۳۱۸)
علامہ اقبال نے اُردو شاعری کی تاریخ میں پہلی مرتبہ شاہین کا ایک خاص تصور پیش کیا ہے۔ اقبال کا شاہین کار زارِحیات میں چند مخصوص امتیازات رکھتا ہے۔ فقر بھی انھی امتیازات سے متصف ہے۔ علامہ اقبال نے ایک خط میں وضاحت کی ہے کہ:’’اس جانور میں اسلامی فقر کے تمام خصوصیات پائے جاتے ہیں: (۱)خوددار اورغیرت مند ہے کہ اور کے ہاتھ کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا۔ (۲) بے تعلق ہے کہ آشیانہ نہیں بناتا۔ (۳)بلند پرواز ہے۔(۴)خلوت پسند ہے۔ (۵)تیز نگاہ ہے‘‘۔(اقبال نامہ،ص۱۹۴)
گویا شاہین میں بیش تر وہ امتیازات موجود ہیں جوفقیر کی زندگی کا لازمی جزو ہیں۔ بعض مقامات پر اقبال کے ہاںیوں محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے فقر کی تجسیم آں حضوؐر کی ذات مبارک میں کی ہے۔اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت شبیرؓ اورحضرت خالدؓ بن ولید کو بھی ایسے مردانِ قلندرمیں شمار کرتے ہیں جن کا وجود کسی معاشرے کے لیے باعث خیروبرکت ہوتا ہے:
آتشِ ما سوز ناک از خاکِ او
شعلہ ترسد از خس و خاشاکِ او
بر نیفتد ملتے اندر نبرد
تا درو باقیست یک درویشِ مرد
(پس چہ باید کرد،ص۲۱؍۸۱۷)
اقبال کے تصور فقر کے سلسلے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اقبال کئی جگہ خود کو ایک ’قلندر‘اور’مردفقیر‘قرار دیتے ہیں۔ فقر کو وہ اپنے لیے باعثِ عزت وفخر سمجھتے ہیں۔وہ فقرکو شاعری سے بھی برترقرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دولتِ فقر کے مقابلے میں دنیا کی ظاہری شان و شوکت ہیچ ہے۔ فرماتے ہیں:
خوش آگئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگر نہ شعر مرا کیا ہے ، شاعری کیا ہے؟
(بال جبریل،ص۴۸؍۳۴۰)
مرا طریق امیری نہیں ، فقیری ہے
خودی نہ بیچ ، غریبی میں نام پیدا کر
(ایضاً،ص۱۴۷؍۴۳۹)
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے ، وہ آئینہ سازی
(ایضاً،ص۱۴۶؍۴۳۸)
علامہ کا دعوے فقر وقلندری نری لفّاظی نہیں،انھوں نے اپنے نجی زندگی میں بھی فقروقلندری کو برتا ہے۔مزا جاًوہ درویش تھے۔ مولانا غلام رسول مہرطویل عرصے تک حضرت علامہ کی خدمت میں حاضر رہے۔سفروحضرمیں بھی ساتھ رہا۔ وہ لکھتے ہیں:’’ان کی فطرت وطبیعت درویشانہ تھی۔ یہ ان کے کلام میں بار بار نظر آتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو’فقیر ‘اور’دریش ‘ اور’قلندر‘کہہ کر پکارتے تھے تو یہ کوئی شاعر انہ تخیل آرائی نہ تھی بلکہ ان کی فطرت کے صحیح احساس کا اظہار تھا‘‘۔(حیات اقبال کے چند مخفی گوشے، ص ۵۵۵) مہرصاحب ایک اور جگہ لکھتے ہیں:’’فقیری ، قلندری، توکل اور خدا کے سوا ہر شے سے بے نیازی اقبال کے وہ اوصاف ہیں جو آخری دور کی طرح پہلے دور میں بھی ممتاز تھے‘‘۔(اقبالیات مہر،ص۲۲۲)
حیات اقبال کے بعض واقعات،ان کے درویشانہ اِستغنا کی طرف اشارہ کرتے ہیں،مثلاً: بھوپال کے نواب حمید اللہ خاں نے مئی ۱۹۳۵ء میں علامہ کا پانچ سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔ اس کے محرک سر راس مسعود تھے۔ سر راس نے یہ کوشش بھی کہ بہاول پور اور حیدرآباد کی ریاستوں اورسر آغا خاں کی طر ف سے بھی اسی طرح کے وظائف مقرر ہو جائیں۔ان کی درخواست پر آغا خان نے پانچ سو روپے ماہوار کی اعانت منظور کر لی مگر خوداقبال نے ان تجاویز کو پسند نہیں کیا۔ ۱۱؍دسمبر۱۹۳۵ء کو راس مسعود کے نام ایک خط میں لکھا:’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضر ت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے ،وہ کافی ہے اور کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپے کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے‘‘۔(اقبال نامے،ص۱۹۵)
اقبال کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد،علامہ ک وسیالکوٹ والے مکان کا ایک حصہ دینا چاہتے تھے۔ یہ علامہ کا اِستغنا تھا کہ وہ مکان لینے کے لیے تیار نہ ہوئے بلکہ ستمبر۱۹۳۰ء میں انھوں نے جایداد میں اپنے حقوق سے دست برداری کی قانونی دستاویز بھی لکھ دی۔(مظلوم اقبال، ص۷۵، ۷۹، ۸۰)
اسی طرح آخری زمانے میں انھوں نے حیدرآباد دکن سے سر اکبر حیدری کا بھیجا ہوا ایک ہزار روپے کا چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ (ارمغانِ حجازاردو،ص۴۸؍۶۹۰)علامہ کا یہ مصرع خود انھی پر صادق آتا ہے: ع
فقیرِ راہ نشین و دل غنی دارد
(پیام مشرق،ص۶۳؍۳۳۳)
اقبال کا تصورِفقراُردو شاعری میں ایک نیا اور منفرد تصور ہے۔ کش مکشِ حیات سے فرار، رہبانیت یا ترکِ دنیا سے اس کا علاقہ نہیں بلکہ انسانی ارتقا کے لیے فقر کا متحرک اور برسرِ عمل رہنا ضروری ہے۔ وہ حق وباطل کی آمیزش میں حصہ لیتا ہے اور مثبت اور اخلاقی قدروں کے ذریعے معاشرے کو صحت مند اور پاکیزہ بنانے میں معاونت کرتا ہے۔ وہ مادیت میں ملوث نہیں ہوتا کیوں کہِ استغنا اس کی بنیادی سرشت ہے جو انسان کے اندر نیک طینتی کو فروغ دیتی ہے۔
علامہ اقبال نے فقر کے مفہوم کو وسعت دی ہے اور واضح کیا ہے کہ نہ صرف فرد کے روحانی ارتقا بلکہ معاشرے کی صحت مند اور قومی وملّی سربلندی کے لیے بھی فقر کا رویہ اورقلندرانہ طرزِ عمل اپنانا ضروری ہے۔
کتابیات
۱۔ اعجازاحمد:مظلوم اقبال۔اعجازاحمد۔کراچی،۱۹۸۵ء
۲۔ اقبال،علامہ محمد:اقبال نامہ(مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور، ۲۰۰۵ء
۳۔ اقبال،علامہ محمد:اقبال نامے(مرتبہ:ڈاکٹراخلاق اثرؔ )۔مدھیہ پردیش اردواکادیمی، بھوپال،۶ ۲۰۰ء
۴۔ اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال اردو۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء
۵۔ اقبال،علامہ محمد:کلیات اقبال فارسی۔شیخ غلام علی اینڈ سنزلاہور،۱۹۷۳ء
۶۔ اقبال،علامہ محمد:مکتوبات اقبال(مرتبہ:سیدنذیرنیازی)۔اقبال اکادمی پاکستان لاہور،۱۹۷۷ء
۷۔ حمزہ فاروقی،محمد:حیات اقبال کے چندمخفی گوشے۔ادارہ تحقیقات پاکستان،دانش گاہ پنجاب لاہور،۱۹۸۸ء
۸۔ سیدعبداللہ،ڈاکٹر:مسائل اقبال۔مغربی پاکستان اردواکیڈمی لاہور،۱۹۷۴ء
۹۔ علی ہجویری،شیخ:کشف المحجوب(مترجم:میاں طفیل محمد)۔اسلامک پبلی کیشنزلاہور، ۱۹۸۰ء
۱۰۔ مہر،غلام رسول:اقبالیات مہر(مرتبہ:امجدسلیم علوی)۔مہرسنز لاہور،۱۹۸۸ء
Comment