Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Shikwa , Jawab-e-Shikwa in Urdu Unicode font

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Shikwa , Jawab-e-Shikwa in Urdu Unicode font


    ’’ شکوہ ‘‘
    کیوں زیاں کار بنوں ، سود فراموش رہوں
    فکر فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں
    نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
    ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں
    جرأت آموز مری تاب سخن ہے مجھ کو
    شکوہ اللہ سے ، خاکم بدہن ، ہے مجھ کو
    ہے بجا شیوۂ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
    قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
    ساز خاموش ہیں ، فریاد سے معمور ہیں ہم
    نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
    اے خدا! شکوۂ ارباب وفا بھی سن لے
    خوگر حمد سے تھوڑا سا گلا بھی سن لے
    تھی تو موجود ازل سے ہی تری ذات قدیم
    پھول تھا زیب چمن پر نہ پریشاں تھی شمیم
    شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم
    بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم
    ہم کو جمعیت خاطر یہ پریشانی تھی
    ورنہ امت ترے محبوب کی دیوانی تھی؟
    ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
    کہیں مسجود تھے پتھر ، کہیں معبود شجر
    خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
    مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیونکر
    تجھ کو معلوم ہے ، لیتا تھا کوئی نام ترا؟
    قوت بازوئے مسلم نے کیا کام ترا
    بس رہے تھے یہیں سلجوق بھی، تورانی بھی
    اہل چیں چین میں ، ایران میں ساسانی بھی
    اسی معمورے میں آباد تھے یونانی بھی
    اسی دنیا میں یہودی بھی تھے ، نصرانی بھی
    پر ترے نام پہ تلوار اٹھائی کس نے
    بات جو بگڑی ہوئی تھی ، وہ بنائی کس نے
    تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
    خشکیوں میں کبھی لڑتے ، کبھی دریاؤں میں
    دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
    کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
    شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
    کلمہ جب پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی
    ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے
    اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے
    تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
    سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟
    قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
    بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!
    ٹل نہ سکتے تھے اگر جنگ میں اڑ جاتے تھے
    پاؤں شیروں کے بھی میداں سے اکھڑ جاتے تھے
    تجھ سے سرکش ہوا کوئی تو بگڑ جاتے تھے
    تیغ کیا چیز ہے ، ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
    نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے
    زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے
    تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا در خیبر کس نے
    شہر قیصر کا جو تھا ، اس کو کیا سر کس نے
    توڑے مخلوق خداوندوں کے پیکر کس نے
    کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے
    کس نے ٹھنڈا کیا آتشکدۂ ایراں کو؟
    کس نے پھر زندہ کیا تذکرۂ یزداں کو؟
    کون سی قوم فقط تیری طلب گار ہوئی
    اور تیرے لیے زحمت کش پیکار ہوئی
    کس کی شمشیر جہاں گیر ، جہاں دار ہوئی
    کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
    کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
    منہ کے بل گر کے ‘ھو اللہ احد’ کہتے تھے
    آ گیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز
    قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی قوم حجاز
    ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
    نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
    بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
    تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
    محفل کون و مکاں میں سحر و شام پھرے
    مے توحید کو لے کر صفت جام پھرے
    کوہ میں ، دشت میں لے کر ترا پیغام پھرے
    اور معلوم ہے تجھ کو ، کبھی ناکام پھرے!
    دشت تو دشت ہیں ، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
    بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
    صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
    نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
    تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
    تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
    پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
    ہم وفادار نہیں ، تو بھی تو دلدار نہیں!
    امتیں اور بھی ہیں ، ان میں گنہ گار بھی ہیں
    عجز والے بھی ہیں ، مست مۓ پندار بھی ہیں
    ان میں کاہل بھی ہیں، غافل بھی ہیں، ہشیار بھی ہیں
    سینکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بیزار بھی ہیں
    رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
    برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر
    بت صنم خانوں میں کہتے ہیں ، مسلمان گئے
    ہے خوشی ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
    منزل دہر سے اونٹوں کے حدی خوان گئے
    اپنی بغلوں میں دبائے ہوئے قرآن گئے
    خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہیں
    اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں
    یہ شکایت نہیں ، ہیں ان کے خزانے معمور
    نہیں محفل میں جنھیں بات بھی کرنے کا شعور
    قہر تو یہ ہے کہ کافر کو ملیں حور و قصور
    اور بیچارے مسلماں کو فقط وعدۂ حور
    اب وہ الطاف نہیں ، ہم پہ عنایات نہیں
    بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
    کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب
    تیری قدرت تو ہے وہ جس کی نہ حد ہے نہ حساب
    تو جو چاہے تو اٹھے سینۂ صحرا سے حباب
    رہرو دشت ہو سیلی زدۂ موج سراب
    طعن اغیار ہے ، رسوائی ہے ، ناداری ہے
    کیا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواری ہے؟
    بنی اغیار کی اب چاہنے والی دنیا
    رہ گئی اپنے لیے ایک خیالی دنیا
    ہم تو رخصت ہوئے ، اوروں نے سنبھالی دنیا
    پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
    ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے
    کہیں ممکن ہے کہ ساقی نہ رہے ، جام رہے!
    تیری محفل بھی گئی ، چاہنے والے بھی گئے
    شب کے آہیں بھی گئیں ، صبح کے نالے بھی گئے
    دل تجھے دے بھی گئے ، اپنا صلا لے بھی گئے
    آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
    آئے عشاق ، گئے وعدۂ فردا لے کر
    اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
    درد لیلی بھی وہی ، قیس کا پہلو بھی وہی
    نجد کے دشت و جبل میں رم آہو بھی وہی
    عشق کا دل بھی وہی ، حسن کا جادو بھی وہی
    امت احمد مرسل بھی وہی ، تو بھی وہی
    پھر یہ آزردگی غیر سبب کیا معنی
    اپنے شیداؤں پہ یہ چشم غضب کیا معنی
    تجھ کو چھوڑا کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
    بت گری پیشہ کیا ، بت شکنی کو چھوڑا؟
    عشق کو ، عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
    رسم سلمان و اویس قرنی کو چھوڑا؟
    آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
    زندگی مثل بلال حبشی رکھتے ہیں
    عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی
    جادہ پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی
    مضطرب دل صفت قبلہ نما بھی نہ سہی
    اور پابندی آئین وفا بھی نہ سہی
    کبھی ہم سے ، کبھی غیروں سے شناسائی ہے
    بات کہنے کی نہیں ، تو بھی تو ہرجائی ہے !
    سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے
    اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے
    آتش اندوز کیا عشق کا حاصل تو نے
    پھونک دی گرمی رخسار سے محفل تو نے
    آج کیوں سینے ہمارے شرر آباد نہیں
    ہم وہی سوختہ ساماں ہیں ، تجھے یاد نہیں؟
    وادی نجد میں وہ شور سلاسل نہ رہا
    قیس دیوانۂ نظارۂ محمل نہ رہا
    حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
    گھر یہ اجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا
    اے خوش آں روز کہ آئی و بصد ناز آئی
    بے حجابانہ سوئے محفل ما باز آئی
    بادہ کش غیر ہیں گلشن میں لب جو بیٹھے
    سنتے ہیں جام بکف نغمۂ کو کو بیٹھے
    دور ہنگامۂ گلزار سے یک سو بیٹھے
    تیرے دیوانے بھی ہیں منتظر ‘ھو’ بیٹھے
    اپنے پروانوں کو پھر ذوق خود افروزی دے
    برق دیرینہ کو فرمان جگر سوزی دے
    قوم آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
    لے اڑا بلبل بے پر کو مذاق پرواز
    مضطرب باغ کے ہر غنچے میں ہے بوئے نیاز
    تو ذرا چھیڑ تو دے، تشنۂ مضراب ہے ساز
    نغمے بے تاب ہیں تاروں سے نکلنے کے لیے
    طور مضطر ہے اسی آگ میں جلنے کے لیے
    مشکلیں امت مرحوم کی آساں کر دے
    مور بے مایہ کو ہمدوش سلیماں کر دے
    جنس نایاب محبت کو پھر ارزاں کر دے
    ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کر دے
    جوئے خوں می چکد از حسرت دیرینۂ ما
    می تپد نالہ بہ نشتر کدۂ سینۂ ما
    بوئے گل لے گئی بیرون چمن راز چمن
    کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن !
    عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
    اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرواز چمن
    ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک
    اس کے سینے میں ہے نغموں کا تلاطم اب تک
    قمریاں شاخ صنوبر سے گریزاں بھی ہوئیں
    پتّیاں پھول کی جھڑ جھڑ کے پریشاں بھی ہوئیں
    وہ پرانی روشیں باغ کی ویراں بھی ہوئیں
    ڈالیاں پیرہن برگ سے عریاں بھی ہوئیں
    قید موسم سے طبیعت رہی آزاد اس کی
    کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی!
    لطف مرنے میں ہے باقی ، نہ مزا جینے میں
    کچھ مزا ہے تو یہی خون جگر پینے میں
    کتنے بے تاب ہیں جوہر مرے آئینے میں
    کس قدر جلوے تڑپتے ہیں مرے سینے میں
    اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
    داغ جو سینے میں رکھتے ہوں ، وہ لالے ہی نہیں
    چاک اس بلبل تنہا کی نوا سے دل ہوں
    جاگنے والے اسی بانگ درا سے دل ہوں
    یعنی پھر زندہ نئے عہد وفا سے دل ہوں
    پھر اسی بادۂ دیرینہ کے پیاسے دل ہوں
    عجمی خم ہے تو کیا ، مے تو حجازی ہے مری
    نغمہ ہندی ہے تو کیا ، لے تو حجازی ہے مری!

    ’’ جواب ِ شکوہ ‘‘


    دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
    پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
    قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
    خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے

    عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
    آسماں چیرگیا نالۂ فریاد مرا

    پیر گردُوں نے کہا سُن کے ، کہیں ہے کوئی !
    بولے سیارے ، سرِ عرشِ بریں ہے کوئی !
    چاند کہتا تھا ، نہیں اہلِ زمیں ہے کوئی !
    کہکشاں کہتی تھی پوشیدہ یہیں ہے کوئی !
    کُچھ جو سمجھا مرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
    مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

    تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا !
    عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا !
    تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا ؟
    آگئی خاک کی چُٹکی کو بھی پرواز ہے کیا ؟

    غافل آداب سے سُکانِ زمیں کیسے ہیں !
    شوخ و گُستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں !

    اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
    تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے ؟
    عالمِ کیف ہے دانائے رموزِکم ہے
    ہاں ، مگر عجز کے اسرار سے نا محرم ہے

    ناز ہے طاقتِ گُفتار پہ انسانوں کو
    بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

    آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
    اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
    آسماں گیر ہوا نعرۂ مستانہ ترا
    کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

    شکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے تُو نے
    ہم سُخن کر دیا بندوں کو خدا سے تُو نے

    ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
    راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
    تربیت عام تو ہے ، جوہرِ قابل ہی نہیں
    جس سے تعمیر ہو آدم کی ، یہ وہ گِل ہی نہیں

    کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
    ڈُھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

    ہاتھ بے زور ہیں ، الحاد سے دل خُوگر ہیں
    اُمتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
    بُت شکن اُٹھ گئے ، باقی جو رہے بُت گر ہیں
    تھا براہیم پدر اور پسر آذر ہیں

    بادہ آشام نئے ، بادہ نیا ، خم بھی نئے
    حرمِ کعبہ نیا ، بُت بھی نئے ، تم بھی نئے

    وہ بھی دِن تھے کہ یہی مایۂ رعنائی تھا !
    نازشِ موسمِ گُل ، لالۂ صحرائی تھا !
    جو مُسلمان تھا اللہ کا سَودائی تھا !
    کبھی محبُوب تمہارا یہی ہرجائی تھا !

    کسی یکجائی سے اَب عہدِ غُلامی کر لو
    ملتِ احمدِ مُرسل کو مقامی کر لو

    کِس قدر تُم پہ گراں صُبح کی بیداری ہے !
    ہم سے کب پیار ہے ؟ ہاں نیند تُمہیں پیاری ہے
    طبع آذاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
    تمہیں کہہ دو یہی آئینِ وفا داری ہے ؟

    قوم مذہب سے ہے ، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
    جذبِ باہم جو نہیں ، محفلِ انجم بھی نہیں

    جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن ، تُم ہو
    نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن ، تُم ہو
    بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن ، تُم ہو
    بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن ، تُم ہو

    ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
    کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے ؟

    صفحۂ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے ؟
    نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے ؟
    میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے ؟
    میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے ؟

    تھے تو آباء وہ تمہارے ہی ، مگر تم کیا ہو ؟
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو !

    کیا گیا ؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدۂ حُور
    شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور !
    عدل ہے فاطرِ ہستی کا اَزل سے دستور
    مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور

    تُم میں حُوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
    جلوۂ طُور تو موجُود ہے مُوسٰی ہی نہیں

    منفعت ایک ہے اِس قوم کی ، نقصان بھی ایک
    ایک ہی سب کا نبی ، دین بھی ، ایمان بھی ایک
    حرمِ پاک بھی ، اللہ بھی ، قُرآن بھی ایک
    کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟

    فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

    کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
    مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
    کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
    ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟

    قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
    کچھ بھی پیغام محمد ﷺ کا تمہیں پاس نہیں

    جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آراء تو غریب
    زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
    نام لیتا ہے اگر کوئی ہمارا، تو غریب
    پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

    امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے
    زندہ ہے ملت بیضا غربا کے دم سے

    واعظ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
    برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
    رہ گئی رسم اذاں، روح ہلالی نہ رہی
    فلسفہ رہ گیا، تلقین غزالی نہ رہی

    مسجدیں مرثیہ خوان ہیں کہ نمازی نہ رہے
    یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے

    شور ہے، ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود
    ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
    یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

    یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو!

    دم تقریر تھی مسلم کی صداقت بے باک
    عدل اس کا تھا قوی، لوث مراعات سے پاک
    شجر فطرت مسلم تھا حیا سے نم ناک
    تھا شجاعت میں وہ اک ہستیِ فوق الادراک

    خود گدازی نم کیفیت صہبایش بود
    خالی از خویش شدن صورت مینایش بود

    ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
    اس کے آئینۂ ہستی میں عملِ جوہر تھا
    جو بھروسا تھا اسے قوت بازو پر تھا
    ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

    باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
    پھر پسر قابل میراث پدر کیونکر ہو!

    ہر کوئی مست مۓ ذوق تن آسانی ہے
    تم مسلماں ہو! یہ انداز مسلمانی ہے؟
    حیدری فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
    تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟

    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

    تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
    تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
    چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم
    پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم

    تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریرِ کَے بھی
    یونہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

    خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
    تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار
    تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
    تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

    اب تلک یاد ہے قوموں کو حکایت ان کی
    نقش ہے صفحۂ ہستی پہ صداقت ان کی

    مثل انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
    بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
    شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے
    بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بدظن بھی ہوئے

    ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا
    لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

    قیس زحمت کش تنہائ صحرا نہ رہے
    شہر کی کھائے ہوا، بادیہ پیمانہ نہ رہے
    وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
    یہ ضروری ہے حجاب رُخ لیلا نہ رہے

    گلۂ جور نہ ہو، شکوۂ بیداد نہ ہو
    عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو!

    عہد نو برق ہے، آتش زن ہرخرمن ہے
    ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
    اس نئی آگ کا اقوام کہیں ایندھن ہے
    ملت ختم رسل شعلہ بہ پیراہن ہے

    آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
    آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

    دیکھ کر رنگ چمن ہو نہ پریشاں مالی
    کوکب غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
    خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
    گل بر انداز ہے خون شہداء کی لالی

    رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنابی ہے
    یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

    امتیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
    اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

    نخل اسلام نمونہ ہے بردمندی کا
    پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

    پاک ہے گرد وطن سے سرِ داماں تیرا
    تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
    قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
    غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
    نخل شمع استی و در شعلہ دود ریشۂ تو
    عاقبت سوز بود سایۂ اندیشۂ تو

    تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
    نشۂ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
    ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
    پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

    کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
    عصر نو رات ہے، دھندلا سا تارا تو ہے

    ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا
    غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
    تو سمجھتا ہے یہ سامان ہے دل آزاری کا
    امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا

    کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے
    نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے

    چشم اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
    ہے ابھی محفل ہستی کو ضرورت تیری
    زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
    کوکب قسمت امکاں ہے خلافت تیری

    وقت فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
    نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

    مثل بوٗ قید ہے غنچے میں، پریشاں ہو جا
    رخت بردوش ہوائے چمنستاں ہو جا
    ہے تنک مایہ تو ذرے سے بیاباں ہو جا
    نغمۂ موج سے ہنگامۂ طوفاں ہو جا!

    قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے

    ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
    چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
    یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
    بزم توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

    خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
    نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

    دشت میں، دامن کہسار میں، میدان میں ہے
    بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
    چین کے شہر، مراکش کے بیاباں میں ہے
    اور پوشیدہ مسلماں کے ایمان میں ہے

    چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
    رفعت شان رَفعَنَا لَکَ ذِکرَک دیکھے

    مردم چشم زمین یعنی وہ کالی دنیا
    وہ تمہارے شہداء پالنے والی دنیا
    گرمیِ مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
    عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

    تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
    غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

    عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تری
    میرے درویش! خلافت ہے جہاں گیر تری
    ماسوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
    تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

    امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
    اور محروم ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں نخل ہیں ، کاہیدہ بھی ، بالیدہ بھی ہیں
    سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

    نخلِ اسلام نمونہ ہے بردمندی کا
    پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا








  • #2
    Re: Shikwa , Jawab-e-Shikwa in Urdu Unicode font

    :thanks:

    Comment

    Working...
    X