Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

حیاتِ اقبال کا سبق از سید ابوالاعلیٰ مودوž

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • حیاتِ اقبال کا سبق از سید ابوالاعلیٰ مودوž

    دنیا کا میلان ابتدا سے جدید ترین دور تک اکابر پرستی(ہیرو شپ) کی جانب رہا ہے۔ ہر بڑی چیز کو دیکھ کر ہٰذا ربّی ہٰذاربّی اکبر کہنے کی عادت جس کا ظہور قدیم ترین انسان سے ہوا تھا آج تک اس سے نہیں چھوٹی ہے۔ جس طرح دو ہزار برس پہلے بدھ کی عظمت کا اعتراف اس مخلوق کے نزدیک بجز اس کے اور کسی صورت سے نہ ہو سکتا تھا کہ اس کا مجسمہ بنا کر اس کی عبادت کی جائے۔ اسی طرح آج بیسویں صدی میں دنیا کی سب سے زیادہ سخت منکرِ عبدیت قوم (روس) کا ذہن لینن کی بزرگی کے اعتراف کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ اس کی شخصیت کے آگے مراسم عبودیت بجا لائیں۔
    لیکن مسلمانوں کا نقطۂ نظر اس باب میں عام انسانوں سے مختلف ہے۔ اکابرپرستی کا تصور اس کے ذہن کی افتاد سے کسی طرح میل نہیں کھاتا۔ وہ بڑوں کے ساتھ برتائو کرنے کی صرف ایک ہی صورت سوچ سکتا ہے یعنی اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَیٰ اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمْ اقْتَدِہْ (اللہ نے ان کو زندگی کا سیدھا راستہ بتایا تھا جس پر چل کر وہ بزرگی کے مراتب تک پہنچے لہٰذا ان کی زندگی سے سبق حاصل کرو اور اس کے مطابق عمل کرو)۔
    اسی نقطہ نظر سے میں اس مختصر مضمون میں اپنی قوم کے نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس اقبال کی عظمت کا سکہ ان کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے، اس کی زندگی کیا سبق دیتی ہے۔
    سب جانتے ہیں کہ اقبال نے یہی مغربی تعلیم حاصل کی تھی جو ہمارے نوجوان انگریزی یونیورسٹیوں میں حاصل کرتے ہیں۔ یہی تاریخ یہی ادب، یہی اقتصادیات، یہی سیاسیات، یہی قانون اور یہی فلسفہ انہوں نے بھی پڑھا تھا اور ان فنون میں بھی وہ مبتدی نہ تھے بلکہ منتہی فارغ التحصیل تھے۔ خصوصاً فلسفہ میں تو ان کو امامت کا مرتبہ حاصل تھا جس کا اعتراف موجودہ دور کے اکابر فلاسفر تک کر چکے ہیں۔ جس شراب کے دو چار گھونٹ پی کر بہت سے لوگ بہکنے لگتے ہیں یہ مرحوم اس کے سمندر پیئے بیٹھا تھا۔ پھر مغرب اور اس کی تہذیب کو بھی اس نے محض ساحل پر سے نہیںدیکھا تھا جس طرح ہمارے ۹۹فیصدی نوجوان دیکھتے ہیں بلکہ وہ اس دریا میں غوطہ لگا کر تہہ تک اتر چکا تھا، اور ان سب مرحلوں سے گزرا تھا جن میں پہنچ کر ہماری قوم کے ہزاروں نوجوان اپنے دین و ایمان ، اپنے اصول ، تہذیب و تمدن اور اپنے قومی اخلاق کے مبادی تک سے برگشتہ ہو جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی قومی زبان تک بولنے کے قابل نہیں رہتے۔
    لیکن اس کے باوجود اس شخص کا حال کیا تھا؟ مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا، اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا۔ اس کی گہرائیوں میں جتنا اترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہو چکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی ہی نہیں رہا۔ وہ جو کچھ سوچتا تھا قرآن کے دماغ سے سوچتا تھا، جو کچھ دیکھتا تھا قرآن کی نظر سے دیکھتا تھا۔ حقیقت اور قرآن اس کے نزدیک شے واحد تھے، اور اس شے واحد میں وہ اس طرح فنا ہو گیا تھا کہ اس کے دور کے علماء دین میں بھی مجھے کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو فنائیت فی القرآن میں اس امام فلسفہ اور اس ایم اے پی ایچ ڈی بار ایٹ لا سے لگا کھاتا ہو۔
    بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ آخری دور میں اقبال نے تمام کتابوں کو الگ کر دیا تھا اور سوائے قرآن کے اور کوئی کتاب وہ اپنے سامنے نہ رکھتے تھے۔ وہ سالہا سال تک علوم و فنون کے دفتروں میں غرق رہنے کے بعد جس نتیجے پر پہنچے تھے، وہ یہ تھا کہ اصل علم قرآن ہے اور یہ جس کے ہاتھ آ جائے وہ دنیا کی تمام کتابوں سے بے نیاز ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص نے ان کے پاس فلسفہ کے چند اہم سوالات بھیجے، اور ان کا جواب مانگا۔ ان کے قریب رہنے والے لوگ متوقع تھے، کہ اب علامہ اپنی لائبریری کی الماریاں کھلوائیں گے اور بڑی بڑی کتابیں نکلوا کر ان مسائل کا حل تلاش کریں گے، مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لائبریری کی الماریاں مقفل کی مقفل رہیں، اور وہ صرف قرآن ہاتھ میں لے کر جواب لکھنے بیٹھ گئے۔
    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ذات مبارک کے ساتھ ان کی والہانہ عقیدت کا حال اکثر لوگوں کو معلوم ہے، مگر یہ شاید کسی کو نہیں معلوم کہ انہوں نے اپنے سارے تفلسف اور اپنی تمام عقلیت کو رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے قدموں میں ایک متاع حقیر کی طرح نذر کر کے رکھ دیا تھا۔ حدیث کی جن باتوں پر نئے تعلیم یافتہ نہیں پرانے مولوی تک کان کھڑے کرتے ہیں اور پہلو بدل بدل کر تاویلیں کرنے لگتے ہیں، یہ ڈاکٹر آف فلاسفی ان کے ٹھیٹھ لفظی مفہوم پر ایمان رکھتا تھا اور ایسی کوئی حدیث سن کر ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے دل میں شک کا گزر نہ ہوتا تھا۔
    ایک مرتبہ ایک صاحب نے ان کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں اس حدیث کا ذکر کیا جس میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اصحابِ تلاثہ کے ساتھ کوہ احد پر تشریف رکھتے تھے، اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور نے فرمایا کہ ٹھہر جا تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا۔
    اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا کہ اس میں اچنبھے کی کونسی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں، اور میرے نزدیک اس کے لیے کسی تاویل کی حاجت نہیں، اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے آ کر مادے کے بڑے سے بڑے تودے بھی لرز اٹھتے ہیں، مجازی طور پر نہیں واقعی لرز اٹھتے ہیں۔
    ساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا

  • #2
    Re: حیاتِ اقبال کا سبق از سید ابوالاعلیٰ مودو&

    :thnks:

    Comment

    Working...
    X