Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Jwab Shikwa - Az Iqbal... جواب شکوہ از اقبال

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Jwab Shikwa - Az Iqbal... جواب شکوہ از اقبال

    دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
    پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
    قدسی الاصل ہے، رفعت پر نظر رکھتی ہے
    خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پے گزر رکھتی ہے
    عشق تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک مرا
    آسماں چیر گیا نالہء بیباک مرا

    پیر گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوءی
    بولے سیّارے لے، سرِ عرشِ بریں ہے کوءی
    چاند کہتا تھا نہیں!اہلِ زمیں ہے کوءی
    کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوءی
    کچھ جو سمجھا میرے شکوے کو تو رضواں سمجھا
    مجھے جنت سے نکالا ہوا انساں سمجھا
    تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
    عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
    تا سرِ عرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
    آ گءی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا
    غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
    شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں
    اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
    تھا جو مسجودِ ملاءک، یہ وہی آدم ہے
    عالمِ کیف ہے، داناءے رموز کم ہے
    ہاں مگر عجز کے اسرار سے نامحرم ہے
    ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
    بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
    آءی آواز، غم انگیز ہے افسانہ ترا
    اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
    آسماں گیر ہوا نعرہ ء مستانہ ترا
    کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا
    شُکر شکوے کو کیا حُسنِ ادا سے کو نے
    ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے
    ہم کو ماءل بہ کرم ہیں ،کوءی ساءل ہی نہیں
    راہ دکھلاءیں کسے، رہرو و منزل ہی نہیں

    تربیت عام ہے، جوہرِ قابل ی نہیں
    جس سے تعمیر ہو آدم کی، یہ وہ گِل ہی نہیں
    کوءی قابل ہو تو ہم شان کءی دیتے ہیں
    ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نءی دیتے ہیں
    ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں
    امّتی باعثِ رسواءیِ پیغمبر ہیں
    بُت شکن اٹھ گءے باقی جو رہے بت گر ہیں
    تھا براہیم پدر اور پسر اآذر ہیں
    بادہ آشام نءے، بادہ نیا، خم بھی نءے
    خرمِ کعبہ نیا بت بھی نءے، تُم بھی نءے
    وہ بھی دن تھے کہ یہی مایہ ء رعناءی تھا
    نازشِ موسمِ گُل لالہ صحراءی تھا
    جو مسلماں تھا، اللہ کا سوداءی تھا
    کبھی محبوب تمہارا یہی ہرجاءی تھا
    کسی یکجاءی سے اب عہدِ غلامی کر لو
    ملتِ احمدِ مرسل کو مقامی کر لو

    کش قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
    ہم سے کب پیار ہے! ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
    طبعِ آزاد پر قیدِ رمضاں بھاری ہے
    تمہی کہہ دو یہی آءینِ وفا داری ہے
    قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
    جذبِ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
    جن کو آتا نہیں دنیا میں کوءی فن، تم ہو
    نہیں جس قوم کو پرواءے نشیمن ، تم ہو
    بجلیاں جس میں ہوں آسودہ، وہ خرمن تم ہو
    بیچ کھاتے ہو جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
    ہو نکو نام جو قدموں کی تجارت کر کے
    کیا نہ بیچو گے جو مل جاءیں صنم پتھر کے
    صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
    نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے؟
    میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
    میرے قرآں کو سینوں سے لگایا کس نے؟
    تھے تو آبا وہ تمہارےہی، مگر تم کیا ہو
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
    کیا کہا!بہرِ مسلماں ہے فقط وعدہ ء حور
    شکوہ بیجا بھی کرے کوءی تو لازم ہے شعور
    عدل ہے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور
    مسلم آءیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور
    تم میں حوروں کا کوءی چاہنے والا ہی نہیں
    جلوہ ء طور تو موجود ہے، موسٰی ہی نہیں

    منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
    ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
    فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتی ہیں
    کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
    کون ہے تارکِ آءین رسولِ مختار؟
    مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
    کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
    ہو گءی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
    قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں
    کچھ بھی پیغامِ محمدکا تمہیں پاس نہیں
    جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب
    زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
    نام لیتا ہے اگر کوءی ہمارا، تو غریب
    پردہ رکھتا ہے اگر کوءی تمہارا، تو غریب
    امرا نشہء دولت میں ہیں غافل ہم سے
    زندہ ہے ملّتِ بیضا غربا کے دم سے

    واعظِ قوم کی وہ پختہ خیالی نہ رہی
    برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
    رہ گءی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
    فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی
    مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
    یعنی وہ صاحبِ اوصافِ حجازی نہ رہے
    شور ہے، ہو گءے دنیا سے مسلمان نابود
    ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
    وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
    یہ مسلماں ہیں! جنہیں دیکھ کے شرماءیں یہود
    یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغاں بھی ہو
    تم سبھی کچھ ہو، بتاءو تو مسلماں بھی ہو

    دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
    عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے باک
    شجر فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک
    تھا شجاعت میں وہ اک ہستی فوق الادراک
    خود گدازی نم کیفیتِ صہبایش بود
    خالی از خویش شدن صورتِ مینایش بود
    ہر مسلماں رگِ باطل کے لیے نشتر تھا
    اس کے آءینہ ہستی میں عمل جوہر تھا
    جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
    ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا
    باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
    پھر پسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہے
    ہر کوءی مستِ مءے تن آسانی ہے
    تم مسلماں ہو! کیا یہ اندازِ مسلمانی ہے
    حیدری فقر ہے نے دولتِ عثمانی ہے
    تم کو اسلاف سے کیا نسبتِ روحانی ہے؟
    وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
    اور تم خوار ہوءے تارکِ قرآں ہو کر
    تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
    تم خطاکار و خطا بیں، وہ خطا پوش و کریم
    چاہتے سو ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
    پہلے ویسا کوءی پیدا تو کرے قلب سلیم
    تختِ فغفور بھی اُن کا تھا، سریر کے بھی
    یوں ہی باتیں ہی کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟
    خود کشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
    تم اخوّت سے گریزاں، وہ اخوّت پہ نثار
    تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
    تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بہ کنار

    مثلِ انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوءے
    بُت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوءے
    شوقِ پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوءے
    بے عمل تھے ہی جواں، دین سے بد ظن بھی ہوءے
    قیس زحمت کشِ تنہیا ءی صحرا نہ رہے
    شہر کی کھاءے ہاو، بادیہ پیما نہ رہے
    گلہِ جور نہ ہو، شکوہ بیداد نہ ہو
    عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو
    عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
    ایمن اس سے کوءی صحرا نہ کوءی گلشن ہے
    اس نءی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
    ملتِ ختمِ رسل شعلہ بہ پیراہن ہے
    آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا
    آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا

    دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشان مالی
    کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
    خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
    گل برانداز ہے خونِ شہدا کی لالی
    رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تُو عنّابی ہے
    یہ نکلتے ہوءے سورج کی اُفق تابی ہے
    اُمتّیں گلشن ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
    اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
    سیکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
    سیکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں
    نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
    پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
    پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
    تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
    قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
    غیر یک بانگِ درا کچہ نہیں ساماں تیرا
    نخلِ شمع استی و در شعلہ دود ریشہ تو
    عاقبت سوز بود سایہ اندیشہ تو
    تو نہ مٹ جاءے گا ایران کے مٹ جانے سے
    نشہ مے تعلق نہیں پیمانے سے
    ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
    پاسباں مل گءے کعبے کو صنم خانے سے

    کشتیِ حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
    عصرِ نو رات ہے، دھندلا سا ستارا تُو ہے
    ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
    غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
    تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کاا
    امتحاں ہے ترے ایثار کا، خود داری کا
    کیوں ہراساں ہے صہیلِ فرسِ اعدا سے
    نور ِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے
    چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
    ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
    زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
    کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری
    وقتِ فرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے
    نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
    مثلِ بُو قید ہے غنچے میں ، پریشاں ہو جا
    رخت بردوش ہواءے چمنستاں ہو جا
    ہے تنک مایہ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا
    نغمہ ء موج سے ہنگامہ ء طوفاں ہو جا
    قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
    دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کر دے

    ہو نہ یہ پھول تو بُلبل کا ترنم بھی نہ ہو
    چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
    یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خُم بھی نہ ہو
    بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تُم بھی نہ ہو
    خیمہ افلاک استادہ اسی نام سے ہے
    نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
    دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
    بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
    چین کے شہر، مراقش کے بیاباں میں ہے
    اور پوشیدہ مسلمان کے ایماں میں ہے
    چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
    رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے

    مردمِ چشمِ زمیں یعنی وہ کالی دنیا
    وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
    گرمی مہر کی پروردہ ہلالی دنیا
    عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا
    تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
    غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح
    عقل ہے تیری سپر، عشق ہے شمشیر تیری
    مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تیری
    ماسوی اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
    تُو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
    کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
    یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں

  • #2
    Re: Jwab Shikwa - Az Iqbal... جواب شکوہ از اقبال

    جمعہ ہے، میں دفتر میں ہو۔ کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے کیونکہ ہفتہ اتوار چھٹی ہوتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کام ختم کر کے گھر جاءوں۔ لیکن ایک دو دن میں"جواب شکوہ" پوسٹ کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ لہٰذا جیسے تیسے کر کے آج شام کو اپنا وعدہ پورا کرنے کی خاطر کام میں سے وقت چرای اور یہ طویل تحریر لکھ ہی لی۔
    غلطیاں ہوں گی، اور فارمیٹنگ وغیرہ بھی نہیں کی میں نے۔

    Comment


    • #3
      Re: Jwab Shikwa - Az Iqbal... جواب شکوہ از اقبال

      Mashallah Kya Bath Hai.
      YOUR SIGNATURE HAS BEEN DELETED BY THE ADMIN.

      Comment


      • #4
        Re: Jwab Shikwa - Az Iqbal... جواب شکوہ از اقبال

        nice:roseteddy

        Comment

        Working...
        X