جب سے احساس کے شعلوں نے بھڑکنا سیکھا
شمعِ زیست نے ہر آن پگھلنا سیکھا
تیری قربت نے جلائے تھے جو اس دل میں چراغ
تیری دوری سے چراغوں نے بھڑکنا سیکھا
اک سناٹا تھا، ویران تھی، گزرگاہِ حیات
جانے کب اس دل نے محبت کو سمجنا سیکھا
عقل والے بھی جہاں ٹھوکرے کھا کھا کے گرے
ہم نے اس راہ سے دراصل سنبھلنا سیکھا
دل کی ہر بات نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے
یہ نظر ملنے پہ اس دل نے سمجنا سیکھا
سحرِ الفت سے نکل پایا نہ زہرہ وہ کبھی
جس نے اس رازِ محبت کو سمجنا سیکھا
Comment