لمحے اور صدیاں
ملاقات کے چند لمحے
فقط چند لمحے نہ تھے
چند صدیاں تھیں
جن میں محبت کی تاریخ تربیت پاتی رہی
تو نے پہلے تو اک اجنبی کی سی حیرت سے
پھر اک دل دوز اپنائیت سے
مری سمت دیکھا
تو لمحوں کے پر جھڑ گئے
تیری زلفوں کی زنجیر ساارے بدن پہ سجائے ہوئے
وقت گڑ سا گیا
چند لمحے چند صدیوں کی مانند پھیلے
تو میں نے سنی
باغ جنت سے حوا و آدم کے رخت سفر باندھنے کی صدا
اور پھر وہ پر اسرار آواز
جس سے خلائوں کو لبریز ہونا تھا
جب یہ زمین چاند سے۔۔۔۔
چاند ۔۔۔۔سورج سے
سورج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی اور ستارے سے ٹکرائے گا
یہاں سے وہاں تک
زمین سے۔۔۔۔۔۔۔زمان تک
مجھےتیری آنکھیں نظر آرہی تھیں
سمندر تلاطم میں تھے
اور لہریں مرے دل کے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں
ابھی تیری انکھوں سے مانوس ہونے میں کچھ دیر تھی
جب تیرے لب ہلے
پھول ہی ہھول تھے
تیری باتوں کی مہکار تھی
تیرے لہجے میں کلیاں چٹکنے کی جھنکار تھی
پھر اک دم ترا حسن میرے لہومیں اترنے لگا
زندگی پر مجھے
اک مدت کے بعد
اخری بار
پیار آگیا
اور پھر میں نے دیکھا
کہ میں تو ازل سے تجھے جانتا ہوں
خدا جانے پھر کیا ہوا
چند صدیاں گزرنے کے بعد
ان خدا کے سوا کون جانے
کہ پھر کیا ہوا
تیری آنکھوں کی تیرے لبوں کی قسم
میں تو بس اس قدر جانتا ہوں
کہ تجھ سے ملاقات کے چند لمحے
فقط چند لمحے نہ تھے
چند صدیاں تھیں
جو چند لمحوں میں گزریں۔۔
Comment