حریت فکر
کتنے چپ چاپ چراغوں کے دھوئیں سے میں نے
اپنے افکار کا موہوم ہیولیٰ ڈھالا
کتنے بجھتے ہوئے چہروں کے عرق سے میں نے
برسوں فردا کا لچکتا ہوا پودا پالا
کتنی معجوب نگاہوں کی شعاعیں لے کر
اپنے ظلمت زدہ احساس کو دیکھا بالا
کتنے مرتاض فقیہوں کے عقیدے رٹ کر
اپنے ایمان پہ ادراک کا پر تو ڈالا
کھول کر کتنے ہی انفاس کے ژولیدہ تار
دل کے بکھرے ہوئے منکوں کی پروئی مالا
عزم اس طرح خیالوں میں ضیا بار رہا
جیسے تاریکی صحرا میں چراغ لالہ
اس مشقت سے مگر آج بھی بے پرواہ ہے
دامن صبح سے تاروں کو بجھانے والا
راہ الفت میں حمیت کو لٹانے پر بھی
میری کمزور امنگوں کو سہارا نہ ملا
کتنے مہکےہوئے محلوں سے ہوا میرا گزر
کسی محفل میں مگر انجمن آرا نہ ملا
ڈھونڈ لی کرہ خاکی کی طنابیں میں نے
آسمانوں سے مگر کوئی اشارہ نہ ملا
جس کی لبروں سے جبینوں کی سیاہی دھلتی
مجھ کو اُس آتش سیال کا دھارا نہ ملا
کتنی پرہول خلیجوں سے گزر کر بھی مجھے
اپنی ہستی کے سمنرر کا کنارہ نہ ملا
اپنے اسلاف کی تاریخ کو چھانا پھٹکا
گرم تھی راکھ مگر کوئی شرار نہ ملا
افق دل پہ وہ گھنگھور گھٹا گھرتی رہی
کہ مجھے رات کو بھی کوئی ستارہ نہ ملا
اب محسوس ہوا کہ مری مجبوری
مرے سمٹے ہوئے ماحول کا افسانہ ہے
ان صداوں سے تو دریوزہ گری ہی بہتر تھی
مری فریادکی بنیاد کلیمانہ ہے
کیسے مانوں کہ یہ فانوس ہے یا منبع نور
جب مرے سامنے خاکستر پروانہ ہے
اف یہ سہمی ہوئی راتیں یہ ترستے ہوئے دن
میری دنیا کا ہر انداز گدایانہ ہے
سجدہ گاہوں کی سلاسل ہیں خیالوں کے فریب
ان نگاہوں میں نہ کعبہ ہےنہ بت خانہ ہے
اک نئے شوق سے لبریز ہے پیمانہ دل
اب نہ وہ جام نہ وہ جلوہ جانانہ ہے
المدد اے میرے پرواز کے رنگین خوابو
مجھ کو صدیوں کے دھندلکوں سے پرے جانا ہے
رقص کے ساتھ اگر ساز کی جھنکار نہ ہو
تو اک الجھی ہوئی زنجیر ہے یہ فن سلیم
حسن کے پاس اگر عشوہ صد رنگ نہ ہو
اس سے بہتر ہے کہیں دشت کے پھولوں کی شمیم
زیست کی راہ میں اگر خطرے نہ منڈلائیں
تو یہ انفاس کے تاروں کی ہے بوسیدہ گلیم
ایک مرکز پہ گھمائوں گا نظام کونین
کہ کسی کا بھی نہیں دعوی شاہی تسلیم
یہ کہیں حریت فکرکی آواز نہ ہو
قصر فردا سے مجھے کون بلاتا ہےندیم
:)
Comment