پھر وہی نرم ہوا
وہی آہستہ سفر موجِ صبا
گھر کے دروازے پہ ننھی سی ہتھیلی رکھے
منتظر ہے
کہ کِسی سمت سے آواز کی خوشبو آئے
سبز بیلوں کے خنک سائے سے کنگن کی کھنک
سُرخ پُھولوں کی سجل چھاؤں سے پائل کی جھنک
کوئی آواز۔۔۔بنا مِ موسم!
اور پھر موجِ ہوا،موجہ خُوشبو کی وہ البیلی سکھی
کچی عمروں کے نئے جذبوں کی سر شاری سے پاگل برکھا
دھانی آنچل میں شفق ریز،سلونا چہرہ
کاسنی چُنری،بدن بھیگا ہوا
پشت پر گیلے ،مگر آگ لگاتے گیسو
بھوری آنکھوں میں دمکتا ہُوا گہرا کجرا
رقص کرتی ہوئی، رِم جھم کے مُدھر تال کے زیرو بم پر
جُھومتی ،نقرئی پازیب بجاتی ہوئی آنگن میں اُترآئی ہے
تھام کر ہاتھ یہ کہتی ہے
مرے ساتھ چلو!
لڑکیاں
شیشوں کے شفاف دریچوں پہ گرائے ہُوئے سب پردوں کو
اپنے کمروں میں اکیلی بیٹھی ہے
کیٹس کے ’’اوڈس‘‘ پڑھاکرتی ہیں
کتنا مصروف سکوں چہروں پہ چھایا ہے۔۔مگر
جھانک کے دیکھیں
توآنکھوں کو نظر آئے،کہ ہرمُوئے بدن
گوش برساز ہے!
ذہن بیتے ہُوئے موسم کی مہک ڈھونڈتا ہے
آنکھ کھوئے ہُوئے خوابوں کا پتہ چاہتی ہے
دل ،بڑے کرب سے
دروازوں سے ٹکراتے ہوئے نرم رِم جھم کے مُدھر گیت کے اس سُرکو بُلانے کی سعی کرتا ہے
جو گئے لمحوں کی بارش میں کہیں ڈوب گیا [MENTION=18675]pink rose[/MENTION]
Comment