Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

یاور عظیم کی تین غزلیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • یاور عظیم کی تین غزلیں



    1غزل


    میں پہلی بار اِس جنگل سے گزرا تھا تو سب ایسا نہیں تھا
    یہاں کچھ کچھ پرندے بولنے والے تھے ، سناٹا نہیں تھا


    محبت نے مجھے قید ِ عناصر سے بہت آگے بُلایا
    مگر میں اپنی مٹی کے شکنجے سے نکل پایا نہیں تھا


    اِسی نقارخانے سے مجھے تربیت ِ فن مل رہی تھی
    میں اپنے شعر کا ڈنکا بجانا سیکھ کر آیا نہیں تھا


    یہ تُو نے کس لیے آنچل پہ تازہ خواہشوں کے پھول کاڑھے
    ترے پلو سے کیا باندھا ہُوا وہ ریشمی وعدہ نہیں تھا


    بقدر ِ آرزو میرا سمندر سے تعلق تھا نہ لیکن
    میں اُتھلے پانیوں سے اپنا رشتہ جوڑنے والا نہیں تھا


    مری تقدیر میں کُچھ سرفرازی کے ہرے لمحے لکھے تھے
    نمو پاتے ہی جو پامال ہو جائے میں وہ سبزہ نہیں تھا


    خموشی ، برف کے مانند ہونٹوں پر دھری رہتی تھی یاور
    گلابی لفظ کے باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا


    یاور عظیم



    2غزل

    نئے نظام کی جو ابتداء نہیں کرتی
    وہ قوم اپنا فریضہ ادا نہیں کرتی


    میں آسماں سے بغلگیر ہونا چاہتا ہوں
    زمین ، اپنی کشش سے رہا نہیں کرتی


    جو روشنی ہے تہ ِ حرف ِ مدعا ، موجود
    ستارگاں کے لبوں پر کِھلا نہیں کرتی


    سو اب لہو سے رقم کی گئی ہے دستاویز
    یقین ورنہ یہ خلق ِ خدا نہیں کرتی


    دعا کے پاس نہیں ہے کلید ِ بست و کشود
    دعا تو باب ِ اجابت کو وا نہیں کرتی


    ہرا ہرا مرا مصرع دکھائی دیتا ہے
    یہ بات کیا مجھے سب سے جُدا نہیں کرتی


    سجا دیا ہے کتابوں کو شیلف میں یاور
    مطالعے کی فراغت ملا نہیں کرتی


    یاور عظیم



    3غزل


    آنکھ کو اشکوں کی مالا دے کے رُخصت ہو گیا
    وہ ہمیں کیا خوب تحفہ دے کے رُخصت ہو گیا


    کس کی آہٹ رات بھر مصرع کشی کرتی رہی
    کون سناٹوں کو لہجہ دے کے رخصت ہو گیا


    صبح کی پہلی کرن کے جاگنے میں دیر تھی
    چاند ، پیشانی پہ بوسہ دے کے رخصت ہو گیا


    آسماں کو اک ذرا چھونے کی خواہش دل میں تھی
    وہ مجھے خوابوں کا زینہ دے کے رخصت ہو گیا


    جو کھڑا تھا ایک سنگ ِ راہ بن کر سامنے
    وہ بھی آخر مجھ کو رستہ دے کے رُخصت ہو گیا


    جس نے کھائی تھی سفر میں ساتھ دینے کی قسم
    دو قدم مجھ کو سہارا دے کے رُخصت ہو گیا


    وا کیا میں نے قفس کے باب کو یاور عظیم
    اور دعا کوئی پرندہ دے کے رخصت ہو گیا


    یاور عظیم





  • #2
    Re: یاور عظیم کی تین غزلیں

    nice................

    Comment

    Working...
    X