ارضِ پاک کے لیے ایک دعائیہ
تیرے دریاؤں میں مانجھیوں کی صدا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
ساحلوں ساحلوں چاہتوں کی فضا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
تیرے جنگل جزیرے مہکتے رہیں، تیرے مرجان موتی چمکتے رہیں
تیرے سبزے کی چادر پہ بادِ صبا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
کوئی سچل ہو یا کوئی خوشحال ہو، تیری مٹی پہ مستوں کا دھمّال ہو
آستانِ محبت پہ روحِ وفا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
جنگ ہو، امن ہو، یا کوئی دَور ہو، سرحدوں کا تری رنگ ہی اور ہو
طبل کی دھن پہ بھی فاختہ کی نوا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
تیرے صحراؤں میں تشنہ کامی نہ ہو، کاروانوں میں وحشت خرامی نہ ہو
ساربانوں کے نغموں کو سن کر گھٹا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
یاد آتی رہے بچھڑے محبوب کی، اک ملاقات کے منظرِ خوب کی
تیرے کہسار پر بادلوں کی ردا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
میں ترا شاعرِ خوش گماں خوش نظر جو بھی لکھوں ترے حسن کو دیکھ کر
میرے ہاتھوں کے سائے میں فکرِ رسا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
لیاقت علی عاصم
تیرے دریاؤں میں مانجھیوں کی صدا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
ساحلوں ساحلوں چاہتوں کی فضا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
تیرے جنگل جزیرے مہکتے رہیں، تیرے مرجان موتی چمکتے رہیں
تیرے سبزے کی چادر پہ بادِ صبا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
کوئی سچل ہو یا کوئی خوشحال ہو، تیری مٹی پہ مستوں کا دھمّال ہو
آستانِ محبت پہ روحِ وفا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
جنگ ہو، امن ہو، یا کوئی دَور ہو، سرحدوں کا تری رنگ ہی اور ہو
طبل کی دھن پہ بھی فاختہ کی نوا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
تیرے صحراؤں میں تشنہ کامی نہ ہو، کاروانوں میں وحشت خرامی نہ ہو
ساربانوں کے نغموں کو سن کر گھٹا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
یاد آتی رہے بچھڑے محبوب کی، اک ملاقات کے منظرِ خوب کی
تیرے کہسار پر بادلوں کی ردا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
میں ترا شاعرِ خوش گماں خوش نظر جو بھی لکھوں ترے حسن کو دیکھ کر
میرے ہاتھوں کے سائے میں فکرِ رسا، رقص کرتی رہے پھول کھلتے رہیں
لیاقت علی عاصم
Comment